بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استعمال کردہ یونٹس کی کمی بیشی کے لحاظ سے یونٹس کے مختلف ریٹ رکھنا


سوال

 بجلی کے بل جب 200 سے زیادہ یونٹ آجائے تو پھر چھ ماہ تک اس کا ریٹ ڈبل چارج کرتے ہیں، جیسے ایک سے  لے کر سو یونٹ کا ریٹ 7روپے ہے،  اور  101 سے 200 تک کا ریٹ  10 روپے ہے،  کےالیکٹرک والے ایک سے  لے کر جتنے بھی یونٹ  آجائیں  وہ 22 روپے کے حساب سے چھ ماہ تک چارج کرتے ہیں،  اگر چہ یونٹ 100 یا کم آجائیں تو پھر بھی جرمانہ چھ ماہ تک چارج کرتے ہیں، اس طرح کرنا شرعًا  کیسا ہے؟

اور صارفین اس کے لئے کیا کریں کیا کنڈا استعمال کرنا یا کوئی اور صورت جیسے میٹر کی سپیڈ کم کرنا وغیرہ کی کوئی گنجائش ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں کے الیکٹرک والوں کا مختلف  یونٹس پر مختلف رقم چارج کرنا درست ہے،لیکن ایسی صورت میں ان پر لازم ہے کہ جتنے یونٹ آئیں اسی حساب سے بل بنا کر مقررہ رقم وصول کی جاۓ،جرمانے کے طور پر چھ ماہ تک ایک ہی حساب سے چارج کرنا شرعاً درست نہیں ،اس سے اجتناب ضروری ہے۔ 

جہاں تک کنڈا یا کسی دورسے حیلے اور طریقے کی بات ہے تو واضح رہے کہ کنڈا لگانا یامیٹر کی رفتارکم کرنا قانونا  شرعًا ناجائز ہے،  اس سے  اجتناب ضروری ہے۔

السنن الكبرى میں ہے"

"عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: " ‌المسلمون ‌على ‌شروطهم."

(‌‌باب الصدقة على ما شرط الواقف من الأثرة والتقدمة والتسوية،275/6،ط : دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضا : 

"أخبرنا أبو بكر بن الحارث الفقيه، أنبأ أبو محمد بن حيان، ثنا حسن بن هارون بن سليمان، ثنا عبد الأعلى بن حماد، ثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لايحلّ مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ".

(باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارًا،11545/6،  ط:  دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدةً؛ لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ... وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ."

( کتاب الحدود، باب التعزیر، 61/4، ط: سعید)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وقال عليه الصلاة والسلام «‌المسلمون ‌على ‌شروطهم إلا شرطا أحل حراما أو حرم حلالا» وهذه الشروط تحرم الحلال كالتزوج والمسافرة بها والتسري ونحو ذلك فكانت مردودة ولا دليل في الحديث على مدعاهم؛ لأنه عليه الصلاة والسلام جعله أحق أي بالإيفاء فمن أين لهم الفسخ عند فواته".

‌‌(باب المهر،149/2،ط : المطبعة الكبرى الأميرية)

آپ  کے مسائل اور ان کا حل"  میں  ہے:

"س… ہم دُنیا والے دُنیا میں کئی قسموں کی چوریاں دیکھتے ہیں۔ مولانا صاحب! لوگ سمجھتے ہیں کہ بجلی کی چوری، چوری نہیں ہوتی۔ کیا چوری والی بجلی کی روشنی میں کوئی عبادت قبول ہوسکتی ہے؟ چوری کی بجلی سے چلنے والا ہیٹر پھر اس ہیٹر سے کھانا پکانا، چاہے وہ کھانا حلال دولت کا ہو، کیا وہ کھانا جائز ہے؟ ہمارے شہر کے نزدیک ایک مسجد شریف میں گیزر (پانی گرم کرنے کا آلہ) بالکل بغیر میٹر کے ڈائریکٹ لگا ہوا ہے، مسجد والے نہ اس کا الگ سے کوئی بل ہی دیتے ہیں، لوگ اس سے وضو کرکے نماز پڑھتے ہیں، کیا اس گرم پانی سے وضو ہوجاتا ہے؟ جواب ضرور دینا، مہربانی ہوگی۔

ج… سرکاری ادارے پوری قوم کی ملکیت ہیں، اور ان کی چوری بھی اسی طرح جرم ہے جس طرح کہ کسی ایک فرد کی چوری حرام ہے، بلکہ سرکاری اداروں کی چوری کسی خاص فرد کی چوری سے بھی زیادہ سنگین ہے؛ کیوں کہ ایک فرد سے تو آدمی معاف بھی کراسکتا ہے، لیکن آٹھ کروڑ افراد میں سے کس کس آدمی سے معاف کراتا پھرے گا؟ جو لوگ بغیر میٹر کے بجلی کا استعمال کرتے ہیں وہ پوری قوم کے چور ہیں۔ مسجد کے جس گیزر کا آپ نے ذکر کیا ہے اگر محکمے نے مسجد کے لیے مفت بجلی دے رکھی ہے، تو ٹھیک، ورنہ مسجد کی انتظامیہ کمیٹی چور ہے اور اس کے گرم شدہ پانی سے وضو کرنا ناجائز ہے۔ یہی حکم ان تمام افراد اور اداروں کا ہے جو چوری کی بجلی استعمال کرتے ہیں"۔

(چوری کی بجلی سے پکا ہوا کھانا کھانا اور گرم پانی سے وضو کرنا،٧ / ١٨٦،ط : لدھیانوی ) 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506101936

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں