بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بجلی چوری کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے کچھ رشتےدار ہیں جو پشاور کوہاٹ روڈ قمردین گڑھی گاؤں میں رہتے ہیں وہاں اکثر لوگ بجلی چوری کرکے استعمال کرتے ہیں۔ کرایہ دار مالک مکان کو گھر اور بجلی کا اکٹھا کرایہ دے دیتے ہیں۔ پھر مالک مکان ان کے لیے بجلی چوری کےلیے کنڈے ڈالنے کا انتظام کرتا ہے۔ جس سے کرایہ داروں کو بجلی ملتی ہے اور اسے جیسے چاہیں استعمال کرتے ہیں۔ پانی کی موٹر،استری،کپڑوں والی مشین،ہیٹر،پنکھے سب چلاتے ہیں۔ جب ان سے کہا جاۓ تو آپ چوری کر رہےہو  جو ناجائز ہے ،توان کا جواب یہ ہوتا ہے ہم تو مالک مکان کو بجلی کے پیسے دیتے ہیں وہ چوری کرتا ہے یہ گناہ اس کے سر ہے یا کہتے ہیں کہ ہم چوری نہیں کرتے حکومت ہم سے جو باقی چیزوں میں ٹیکس وغیرہ وصول کرتی ہے وہ بھی تو ہم سے چوری کرتی ہے یا کہتے ہیں ہماری لیے یہ جائز ہے ہم غریب ہیں ،باقی جگہ حکومت اتنا زیادہ بل بھیجتی ہے جو ہم ادا نہیں کر سکتے ہم مجبوری سے یہاں ہیں ۔ تو مفتی صاحب ان کا یہ کہنا کہا ں تک صحیح ہے اور ہماری لیے ان سے تعلقات کہاں  تک درست ہیں ؟ کیا ہم وہاں آجاکر کھا پی سکتے ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے رشتہ دار جو چوری کی بجلی استعمال کرتے ہیں وہ قوم کی حق تلفی اور ناجائز عمل کرتے ہیں یا حق تلفی میں مددگار ہوتے ہیں۔ان کا اپنے اس فعل پر جواز کے لیے یہ دلیل پیش کرنا   کہ ہم چوری نہیں کرتے، مالک مکان چوری کرتا ہے ، یہ دلیل درست نہیں ہے کیونکہ سائل کے رشتہ دار گھر کے کرائے کے ساتھ جو اضافی رقم بجلی کی مد میں دیتے ہیں  وہ گویا کہ مالک مکان کو اس بجلی چوری کرنے پر اس کا ساتھ دیتے ہیں اور مالک مکان سائل کے رشتہ داروں کے لیے اس رقم کے عوض یہ غیر قانونی اور غیر شرعی کام کرتا ہے، لہذا رشتہ دار اس چوری کے گناہ کے مرتکب ہیں۔جس کا مالی بوجھ علاقے کے دیگر عوام  کی گردن پر پڑتا ہے، جو کہ ظلم اور زیادتی ہے۔اسی طرح ٹیکس دینے کی وجہ سے چوری کو جائز کہنا یا اپنی مجبوری کی وجہ سے چوری کو جائز ،یہ دونوں باتیں بھی بے بنیاد ہیں۔

سائل کے رشتہ داروں کو چاہیے کہ وہ اس گناہ کبیرہ کو فورا ترک کردیں اور ایک مناسب اندازہ لگا کر حکومت کو چوری شدہ بجلی کا معاوضہ ادا کریں اور توبہ و استغفار کریں ورنہ آخرت میں سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سائل کے لیے ان سے تعلق رکھنے اور ان کے یہاں کھانے پینے کی گنجائش تو ہوگی لیکن تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے گھر نہ جائے تاکہ چوری کی بجلی سے سائل فائدہ حاصل  نہ کرے۔اسی طرح  سائل اس گناہ کی وجہ سے اور تنبیہ کرنے کی خاطر ان سے تعلقات میں کمی  بھی کرسکتا ہے۔

مرقاةالمفاتیح میں ہے:

" وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لعن الله السارق يسرق بيضة فتقطع يده ويسرق الحبل فتقطع يده» . متفق عليه. "

(کتاب الحدود،  باب  قطع السرقة، ج نمبر 6، ص نمبر 2355، درا الفکر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ خمسين يوما. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."

(کتاب الادب، با ب ما ینہی عنہ من التھاجرو التقاطع ج نمبر ۸ ص نمبر ۳۱۴۶، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101552

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں