بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بجلی چوری کی شریعت میں کوئی گنجائش ہے؟


سوال

بندہ نے زمین ٹھیکہ پر دی ہوئی ہے ،اور اس زمین پر بجلی کی مو ٹرٹر بائن لگائی ہوئی ہے، جب کہ مذکورہ زمین  میرے اور میرے بھتیجوں کے درمیان مشترکہ ہے ،میرے بھتیجوں کے جو مستاجر ہیں،وہ  اپنی باری کے جو دن مقرر ہیں ان ایام میں بجلی کے عملے سے مل کر بجلی چوری کرنا چاہتے ہیں،  اور اپنے اس عمل کی اجازت  مجھ سے مانگ رہےہیں ،کیا  اگر  میں ہاں کرتا ہوں، تو گناہ گار ہوں گا یا نہیں؟ آیا بجلی چوری کی شریعت میں کوئی گنجائش ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں بجلی چوری کی کسی بھی قسم کی کوئی  گنجائش نہیں ،یہ شرعاً ناجائز ہے،لہذا صورت مسئولہ میں اگر  سائل بجلی کی چوری کی اجازت دے گا ،توسائل اور  بجلی چوری کرنے والے دونوں گناہ گار ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي) لغة أخذ الشيء من الغير خفية .......  قال القهستاني: وهي نوعان؛ لأنه إما أن يكون ضررها بذي المال أو به وبعامة المسلمين، فالأول يسمى بالسرقة الصغرى والثاني بالكبرى، بين حكمها في الآخر؛ لأنها أقل وقوعا وقد اشتركا في التعريف وأكثر الشروط اهـ أي؛ لأن المعتبر في كل منهما أخذ المال خفية، لكن الخفية في الصغرى هي الخفية عن عين المالك أو من يقوم مقامه كالمودع والمستعير. وفي الكبرى عن عين الإمام الملتزم حفظ طرق المسلمين وبلادهم كما في الفتح."

(كتاب السرقة،42/4، ط: سعيد)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"السرقة لغة أخذ مال الغير على وجه الخفية سمي به؛ لأنه يسارق عين حافظه ويطلب غرته ليأخذه، أو يسارق عين أعوانه على الحفظ بأن يسامره ليلا؛ لأن الغوث بالليل قل ما يلحقه. وهي نوعان: صغرى وكبرى، فالكبرى هي قطع الطريق؛ لأنه يأخذ المال في مكان لا يلحق صاحبه الغوث ويطلب غفلة من التزم حفظ ذلك المكان وهو السلطان، والعقوبة تستحق بكل واحد من الفعلين على حسب الجريمة في الغلظ والخفة."

(کتاب السرقة،133/9، ط: دار المعرفة - بيروت، لبنان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411102889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں