بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بجلی چوری کرنے کے بعد جرمانے سے بچنے کے لیے رشوت کے ذریعے میٹر ٹھیک کروانے کا حکم


سوال

زید بجلی میٹر میں کچھ ہیرا پھیری کرکے بجلی چوری کرتا تھا ، اب اسے احساس ہوا کہ اس طرح بجلی چوری کرنا گناہ کا کام ہے وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہے اگر زید بجلی آفس میں سرنڈر کرتا ہے تو تقریباً دو ڈھائی لاکھ روپے جرمانہ لگے گا اور ساتھ میں کیس بھی ہوگا جب تک زید جرمانہ ادا نہیں کرےگا، کیس چلتا رہےگا اور اس کے گھر میں بجلی بھی نہیں چلے گی بکر ایک بروکر ہے جس کا آفیسروں کے ساتھ کنکشن ہے وہ زید سے کہتا ہے کہ تمہارا کام ہو جائے گا صرف پچاس ساٹھ ہزار لگیں گے۔ کیا زید بروکر کے ذریعہ اپنا میٹر صحیح کرا سکتا ہے یا مکمل جرمانہ ادا کرے؟ بکر اس میں سے کچھ روپے آفیسروں کو دیتا ہے اور کچھ اپنے پاس رکھتا ہے کیا بکر کا اس طرح کا معاملہ کرانا اور پیسے کمانا جائز ہے؟ اگر نہیں تو بکر نے اب تک اس طرح جو پیسے کمائے ہیں ان کا کیا کرے؟

جواب

زید اور بکر کاباہم مذکورہ معاملہ کرنا جائز نہیں ہے ،زید  نے جتنے یونٹ بجلی ہیراپھیری کرکے استعمال کی ہے اگر اس کا یونٹ معلوم ہے تو اتنے یونٹ ورنہ اندازہ لگاکر اس کی قیمت ادا کرنا لازم ہے اور ادائیگی کی جو بھی صورت ہو اس کو اختیار کرے، اور بکر  جو بجلی آفس میں بتائے بغیر افسروں کو کچھ پیسے دے کر کچھ پیسے خود رکھ لیتا ہے ،اور اس طرح دوسروں کے کام کرتا ہے،یہ رشوت کے حکم میں ہے ،بکر کے لیے اس طرح لوگوں سے پیسے لے کر بجلی آفس کے اصول وضوابط سے ہٹ کر کچھ افسروں سے گٹھ جوڑ کر کے  لوگوں کے میٹر صحیح کروانا درست نہیں ،اور یہ پیسے لینا بھی درست نہیں ہے ،اس لیے اب تک بکر نے جو مذکورہ طریقہ پر لوگوں سے پیسے لیے ،بکر پر لازم ہے کہ وہ پیسے  جن جن سے لیے ان کو واپس لوٹائے ،اور اگر واپس لوٹانا ممکن نہیں ہے تو  فقراء ومساکین پر ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا لازم ہے ،اور ساتھ توبہ  استغفار بھی کرتا رہے ۔

فتح القدیر میں ہے:

"وفي شرح الأقطع: ‌الفرق ‌بين ‌الرشوة والهدية أن الرشوة يعطيه بشرط أن يعينه، والهدية لا شرط معها."

(کتاب ادب القاضی،272/7، ط:مطبعة مصطفي بابي حلبي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وعلى هذا قالوا: لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولايأخذون منه شيئًا وهو أولى بهم و يردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه".

(كتاب الحظر و الإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:385، ط:ايج ايم سعيد)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة و غیرها: أن من ملك بملك خبیث، و لم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أنّ المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"حيلة يحتال بها الرجل ليتخلص بها عن حرام أو ليتوصل بها إلى حلال فهي حسنة."

(کتاب الحیل، ج:6، ص:390، ط: مکتبه رشیدیه)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے :

"ولا يجوز حمل تراب ‌ربض ‌المصر لأنه حصن فكان حق العامة فإن انهدم الربض ولا يحتاج إليه جاز كذا في الوجيز للكردري."

(كتاب الكراهية،الباب الثلاثون في المتفرقات،ج:5،ص:373 ،ط:دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"قال القهستاني: وهي نوعان؛ لأنه إما أن يكون ضررها بذي المال أو به وبعامة المسلمين، فالأول يسمى بالسرقة الصغرى والثاني ‌بالكبرى، بين حكمها في الآخر؛ لأنها أقل وقوعا وقد اشتركا في التعريف وأكثر الشروط اهـ أي؛ لأن المعتبر في كل منهما أخذ المال خفية، لكن الخفية في الصغرى هي الخفية عن غين المالك أو من يقوم مقامه كالمودع والمستعير. وفي الكبرى عن عين الإمام الملتزم حفظ طرق المسلمين وبلادهم كما في الفتح."

(كتاب السرقة،ج:4،ص:82 ،ط:سعيد)

روح المعانی میں ہے :

"وهو الترك والتدارك- ‌والعزم ‌على ‌عدم العود، وكثيرا ما تطلق على الندم وحده لكونه لازما للعلم مستلزما للعمل. ،،،،وفي الحديث «الندم توبة»."

(ج:1،ص:238 ،ط:دارالكتب العلمية)

الموسوعة الفقهية الكويتية"  میں ہے:

"إن كان عامدا مختارا عالما بالحرمة، لا جاهلا أو مكرها أو ناسيا."

(‌‌أقسام النسيان‌‌،القسم الثاني،278/40،ط : وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کے نزدیک توبہ نصوح یہ ہے: 

’’الندم بالقلب، والاستغفار باللسان، والإقلاع بالبدن، والإضمار علی أن لا يعود.‘‘                

                         (القاموس الفقهی لغة واصطلاحاً، ص: 50)

مولانا محمد یوسف  لدھیانوی  رحمہ اللہ  تحریر فرماتے ہیں:

"سرکاری ادارے پوری قوم کی ملکیت ہیں، اور ان کی چوری بھی اسی طرح جرم ہے جس طرح کہ کسی ایک فرد کی  چوری حرام ہے، بلکہ سرکاری اداروں کی چوری کسی خاص فرد کی چوری سے بھی زیادہ سنگین ہے، کیونکہ ایک فرد سے تو آدمی معاف بھی کراسکتا ہے لیکن آٹھ کروڑ افراد میں سے کس کس آدمی سے معاف کراتا پھرے گا؟ جو لوگ بغیر میٹر کے بجلی کا استعمال کرتے ہیں وہ پوری قوم کے چور ہیں۔"

(آپ کے مسائل اور ان کا حل ، کھانے پینے کے بارے میں شرعی احکام،  ج:8، ص: 393، ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508100663

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں