بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بجلی چوری کرنے کا حکم


سوال

ملک میں معاشی پالیسیوں کی وجہ سےاورحکمرانوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے،اورقرض لے کے ملک کو دیوالیہ کر دیتے ہیں، جو پھر ہم عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، ہمیں ٹیکس کے بدلےکوئی بھی سہولت نہیں ملتی ،ان حالات میں اگر بجلی حد سے زیادہ مہنگی ہو تو بجلی چوری کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ حالاں کے جب حضرت ابوبکر صدیق رضی خلیفہ بنے تو وہ مزدور کی مزدوری جتنی تنخواہ لیتے تھے۔

جواب

کسی بھی درست یا غلط بات کو عذر بنا کر بجلی چوری کرنا درست نہیں،یہ دھوکہ دہی اور خیانت ہے،کیوں کہ بجلی ایک قومی امانت ہے،اس کو استعمال کرکے اس کا عوض دینا ضروری ہے،پھر بجلی چوری کرنے والے ملک کو عمومی نقصان  پہنچانےکے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا بھی نقصان  پہنچا رہےہوتے ہیں،جو بجلی کا بل قانونی اور ضابطے کے مطابق ادا کر رہے ہوتے ہیں،لہذا بجلی چوری کرنے سے اجتناب کیا جائے،تاہم اگر بجلی کا بل زیادہ آرہا ہےیاکوئی اور شکایت ہے تو متعلقہ ادارے  سے رجوع کر لیا جائےیا جائز قانونی راہ اختیار کی جائے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وهي نوعان؛ ‌لأنه ‌إما ‌أن ‌يكون ‌ضررها ‌بذي ‌المال أو به وبعامة المسلمين، فالأول يسمى بالسرقة الصغرى والثاني بالكبرى، بين حكمها في الآخر؛ لأنها أقل وقوعا وقد اشتركا في التعريف وأكثر الشروط اهـ أي؛ لأن المعتبر في كل منهما أخذ المال خفية، لكن الخفية في الصغرى هي الخفية عن غين المالك أو من يقوم مقامه كالمودع والمستعير. وفي الكبرى عن عين الإمام الملتزم حفظ طرق المسلمين وبلادهم كما في الفتح."

(كتاب السرقة، ج:4 ص:82 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں