بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بجلی چوری کرنے والے کے گھر میں کھانا کھانے کاحکم


سوال

1)جن گھروں میں حرام طریقہ سے روزی آتی ہے جیسا کہ سود ، رشوت ، جھوٹ ،وغیرہ تو کیا انکے گھر کا کھانا کھانا کیسا ہے ؟

2)اور اگر ان معاملات  (سود ،رشوت،جھوٹ،وغیرہ )میں درست  ہیں، لیکن ان کے گھر میں آنے والی بجلی چوری کی ہے ( سرکاری لائٹ کی چوری) تو کیا ان کے گھر کا کھانا کھانا صحیح ہے؟ اور ان کا ہدیہ وغیرہ لینا صحیح ہے؟

جواب

1)صورتوں مسئلہ میں جن گھروں کی آمدنی حرام  ہو اس میں درج ذیل تفصیل ہے:

1۔  اگر   آمدنی خالص حرام ہو، اور وہ ا پنی اس متعین حرا م آمدنی سے کھانا  کھلائیں یا  ہدیہ دیں تو  جان بوجھ کر ان  کا کھانا کھانا جائز نہیں ہے۔

2۔ اگر  آمدنی خالص حرام ہو، لیکن وہ اپنی اس حرام آمدنی سے کھانا کھلانے کے بجائے   کسی دوسرے شخص سے حلال رقم قرض لے کر  کھانے  کا انتظام کریں، تو ایسے صورت میں   کھانا کھانا جائز ہے۔

3۔ اگراان کی  آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی ، اور دونوں آمدنی جدا جدا ہوں، تو ایسی صورت میں اگر وہ حرام آمدنی سے  کھانا کھلائیں تو اس کا کھانا ، کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر حلال سے کھانا کھلائیں تو پھر اس کاکھانا، کھانا  جائز ہوگا۔

4۔اگران کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی  ہو،  اور  یہ دونوں قسم کی آمدنی ان  کے پاس اس طرح مخلوط ہو کہ ایک آمدنی کو  دوسری آمدنی سے ممتاز کرنا مشکل ہو، لیکن حلال آمدنی کی مقدار زیادہ ہو اور حرام آمدنی کی مقدار کم ہو تو ایسی صورت میں ان کا کھانا کھانے  کی گنجائش ہے، لیکن اس صورت میں بھی اگر اجتناب کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

5۔اور اگر ان  کی آمدنی حلال اور حرام سے مخلوط ہو  لیکن  آمدنی کی اکثریت حرام ہو تو اس صورت میں  ان  کا کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا۔

2)واضح رہے کہ حرام بجلی کے استعمال سے حلال کھانا حرام نہیں ہو تا،تاہم حرام کے اثر سے خالی بھی نہیں، مثلاً پانی کی موٹر سے پانی کاحصول،فریج سے ٹھنڈک اور   کھانے کی حفاظت کا انتفاع  اور  اس نوع کے دیگر استعمالات کی وجہ سے اجتناب کرنا بہتر ہے،جب کہ بجلی کی چوری کی وجہ سے مال پر کوئی اثر مرتب  نہیں ہوتا ،اس لیےہدیہ  لینا جائز ہے،البتہ اگر کوئی اعلانیہ چوری کرے تو تنبیہ اور اصلاح کی غرض سے سماجی تعلقات منقطع کیے جا سکتے ہیں۔

المحيط البرهاني میں ہے:

"وفي عيون المسائل : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".

(‌‌‌‌كتاب الاستحسان والكراهية،الفصل السابع عشر في الهدايا والضيافات،ج5،ص367،ط: دارالکتب العلمیه)

تبیین الحقائق میں ہے :

"إن المحظور لغیرہ لا یمتنع أن یکون سببا لحکم شرعي،ألا ترى أن الصلاة في الأرض المغصوبة تجوز وتكون ‌سببا لحصول الثواب الجزيل."

(كتاب الغصب،ج5،ص227،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

آپ کے مسائل ان کا حل میں ہے :

"مسجد کے جس گیزر کا آپ نے ذکر کیا ہے اگر محکمے نے مسجد کے لیے مفت بجلی دے رکھی ہے، تو ٹھیک، ورنہ مسجد کی انتظامیہ کمیٹی چور ہے اور اس کے گرم شدہ پانی سے وضو کرنا ناجائز ہے،یہی حکم ان تمام افراد اور اداروں کا ہے جو چوری کی بجلی استعمال کرتے ہیں."

(ج8،ص394،ط:مکتبہ لدھیانوی)

فتاوٰی شامی  میں ہے:

"ولا يسلم على الشيخ المازح الكذاب واللاغي؛ ولا على من يسب الناس أو ينظر وجوه الأجنبيات، ولا على الفاسق المعلن، ولا على من يغني أو يطير الحمام ما لم تعرف توبتهم ويسلم على قوم في معصية وعلى من يلعب بالشطرنج ناويا أن يشغلهم عما هم فيه عند أبي حنيفة وكره عندهما تحقيرا لهم."

(کتاب الحظر والإباحة، ج6،ص415،ط: سعید)

فتح الباری للعسقلانیؒ میں ہے:

"وقال الطبري : قصة كعب بن مالك أصل هو هجران أهل المعاصي."

(كتاب الأدب،باب ما یجوز من الهجران لمن عصٰی،ج10،ص497،ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں