ایک شخص بجلی کی چوری کرتا ہے، اس کا دوسرا مال حلال ہے، اس میں حرمت اثر کرتی ہے؟
چوری کی بجلی استعمال کرنا شرعاً ناجائز اور قانوناً جرم ہے، اس لیے کہ حکومت کی طرف سے قیمتاً جو سہولیات عوام کو فراہم کی جاتی ہیں ان پر معاشرے کا مشترکہ حق ہوتا ہے، جس حق سے خلافِ ضابطہ فائدہ اٹھانا عوامی حق تلفی اور دھوکا دہی کے زمرے میں آنے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوتا ہے، اور اجتماعی چیز کی چوری کا گناہ بھی فرد کی چوری سے زیادہ ہے، لہذا اس پر خوب توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے اور متعلقہ ادارے تک کسی بھی طرح اس رقم کو واپس کرنا ضروری ہے، اگر مقدار کا اندازا نہیں ہے تو اپنے ماہانہ بجلی کے استعمال کے یونٹ کو دیکھ کر اندازا لگایا جائے کہ پہلے کس قدر بجلی چوری کی استعمال کی ہے، اس اندازے سے احتیاطاً کچھ زیادہ رقم جمع کرادی جائے۔
البتہ بجلی چوری کرنے کی وجہ سے مذکورہ شخص کا دوسرا حلال مال، حرام نہیں ہوگا۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل میں مذکور ہے:
"سرکاری ادارے پوری قوم کی ملکیت ہیں، اور ان کی چوری بھی اسی طرح جرم ہے جس طرح کہ کسی ایک فرد کی چوری حرام ہے، بلکہ سرکاری اداروں کی چوری کسی خاص فرد کی چوری سے بھی زیادہ سنگین ہے؛ کیوں کہ ایک فرد سے تو آدمی معاف بھی کراسکتا ہے، لیکن آٹھ کروڑ افراد میں سے کس کس آدمی سے معاف کراتا پھرے گا؟ (186/7)
فتاوی شامی میں ہے:
"غصب دراهم إنسان من کیسه، ثم ردها فیه بلا علمه برئ، وکذا لو سلمه إلیه بجهة أخری کهبة، أو إیداع، أو شراء، وکذا لو أطعمه فأکله خلافاً للشافعي. زیلعي".
(۹/۲۶۷ ، کتاب الغصب ، مطلب في رد المغصوب وفیما لو أبی المالک قبوله)
معجم المصطلحات میں ہے:
"لأن السرقة في اللغة: أخذ الشيء من الغیر علی سبیل الخفیة والاستسرار بغیر إذن المالک، سواء کان المأخوذ مالاً أو غیر مالٍ … قال اللّٰه تعالیٰ: {اِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ}".
(معجم المصطلحات والألفاظ الفقهیة۲؍۲۶۳)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200577
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن