بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بجلی چوری کرنا


سوال

بجلی چوری کرنے کا کیا حکم ہے؟اور بجلی کا میٹر آہستہ کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

کنڈے اور چوری کی بجلی کا استعمال سراسر ناجائز اور حرام ہے،اور چوں کہ یہ بجلی پوری قوم کی امانت ہے لہذا اس کی چوری کی معافی کی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ پوری قوم سے اس چوری کو معاف کرایا جائے جو کہ عملاً ممکن نہیں ہے۔

نیز میٹر کو آہستہ کردینا بھی بجلی کی چوری ہی شمار ہوگا اس سے بھی اجتناب کرنا ضروری ہے۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں مذکور ہے:

"سرکاری ادارے پوری قوم کی ملکیت ہیں، اور ان کی چوری بھی اسی طرح جرم ہے جس طرح کہ کسی ایک فرد کی چوری حرام ہے، بلکہ سرکاری اداروں کی چوری کسی خاص فرد کی چوری سے بھی زیادہ سنگین ہے؛ کیوں کہ ایک فرد سے تو آدمی معاف بھی کراسکتا ہے، لیکن آٹھ کروڑ افراد میں سے کس کس آدمی سے معاف کراتا پھرے گا؟ (186/7)

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 161 کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:

لفظِ ’’غلول‘‘  مطلق خیانت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور خاص کر مال غنیمت کی خیانت کے لیے بھی اور مالِ غنیمت میں چوری اور خیانت کا جرم عام چوریوں اور خیانتوں سے زیادہ اشد ہے؛ کیوں کہ مالِ غنیمت میں پورے لشکرِ اسلام کا حق ہوتا ہے، تو جس نے اس میں چوری کی اس نے سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی چوری کی، اگر کسی وقت اس کو تلافی کا خیال بھی آوے تو بہت مشکل ہے کہ سب کو ان کا حق پہنچائے یا معاف کرائے۔ بخلاف دوسری چوریوں کے کہ مال کا مالک معلوم و متعین ہے، کسی وقت اللہ نے توبہ کی توفیق دی تو اس کا حق ادا کر کے یا معاف کرا کر بری ہوسکتا ہے۔

                          یہی وجہ تھی کہ ایک غزوہ میں ایک شخص نے اون کا کچھ حصہ چھپا کر اپنے پاس رکھ لیا تھا، مال غنیمت تقسیم ہونے کے بعد اس کو خیال آیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے باوجود رحمۃ للعالمین ہونے اور امت پر ماں باپ سے زیادہ شفیق ہونے کے اس کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اب میں اس کو کس طرح سارے لشکر میں تقسیم کروں، اب تو قیامت کے روز ہی تم اس کو لے کر حاضر ہو گے۔

 اسی لیے غلول کی سزا بھی عام چوریوں سے زیادہ اشد ہے کہ میدان حشر میں جہاں ساری مخلوق جمع ہوگی ، سب کے سامنے اس کو اس طرح رسوا کیا جائے گا کہ جو مال چوری کیا تھا وہ اس کی گردن پر لدا ہوا ہو گا۔  صحیحین میں بروایت حضرت ابوہریرہ مذکور ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:  دیکھو ایسا نہ ہو کہ قیامت میں کسی کو اس طرح دیکھوں کہ اس کی گردن پر ایک اونٹ لدا ہوا ہو (اور یہ اعلان ہوکہ اس نے مالِ غنیمت کا اونٹ چرایا تھا)  وہ شخص اگر مجھ سے شفاعت کا طالب ہوگا تو میں اس کو صاف جواب دے دوں گا کہ میں نے حکمِ الہی پہنچا دیا تھا اب میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اللہ بچائے یہ میدان حشر کی رسوئی ایسی ہوگی کہ بعض روایات میں ہے کہ جن کے ساتھ یہ معاملہ ہوگا وہ تمنا کریں گے کہ ہمیں جہنم میں بھیج دیا جائے مگر اس رسوائی سے بچ جائیں ۔

اموال اوقاف اور سرکاری خزانہ میں چوری بحکم غلول ہے۔

یہی حال مساجد، مدارس، خانقاہوں اور اوقاف کے اموال کا ہے جس میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کا چندہ ہوتا ہے، اگر معاف بھی کرائے تو کس کس سے معاف کرائے، اسی طرح حکومت کے سرکاری خزانے (بیت المال) کا حکم ہے؛ کیوں کہ اس میں پورے ملک کے باشندوں کا حق ہے، جو اس میں چوری کرے اس نے سب کی چوری کی، مگر چوں کہ یہی اموال عموماً ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی شخص مالک نہیں ہوتا، نگرانی کرنے والے بےپروائی کرتے ہیں، چوری کے مواقع بکثرت ہوتے ہیں، اس لیے آج کل دنیا میں سب سے زیادہ چوری اور خیانت ان ہی اموال میں ہو رہی ہے اور لوگ اس کے انجامِ بد اور وبالِ عظیم سے غافل ہیں کہ اس جرم کی سزا علاوہ عذابِ جہنم کے میدانِ حشر کی رسوائی بھی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے محرومی بھی (نعوذ باللہ منہ)‘‘۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200001

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں