بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کو میراث کا حصہ نہ دینا


سوال

ایک صاحب وفات پا گئے انکے زیر قبضہ ایک مکان کچھ دوکانیں اور ایک سرکاری جگہ پر قائم کار پارکنگ کے علاوہ انکے نام پر کچھ زمین اور اس پر تعمیر شدہ املاک تھیں۔ انکو فوت ہوئے پانچ برس سے زائد ہوگئے ہیں ۔کچھ جائیداد ایسی ہے جس کا ذکر اول میں  کیا ہے اس پر ملکیت کا کیس بھی ہے لیکن اس پراپرٹی کا بڑا حصہ مرحوم ہی کا ہے ۔ اس پراپرٹی سے آنے والی آمدن مرحوم کے بیٹے آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں جبکہ مکان میں بھی وہی رہائش پذیر ہیں انکا موقف ہے کہ کرایہ وغیرہ کی تمام آمدن پر بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں ، اسکے علاوہ دیگر پراپرٹی میں سے بھی کچھ بھی بہنوں کے حوالہ نہیں کر رہے،  ایسی صورت میں شرعی حکم کیا ہے، کہ  جائیداد کی آمدن میں بیٹیوں کو محروم کر کے بھائی حلال کھا رہے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ والدین کے ترکہ میں  نرینہ اولاد کی طرح بیٹیوں کا بھی شرعی حق اور حصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا  قبضہ کرلینا اور بیٹیوں  کو  ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور گناہ ِ کبیرہ ہے، بہنوں کو ان کا حق اور  حصہ  اس دنیا میں دینا لازم اور ضروری ہے ، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ، احادیثِ مبارکہ  میں اس بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ لہذامیراث میں سےعورتوں کا حصہ دینا لازم اور ضروری ہے ، بہنوں کو میراث سے محروم کرنا یا ان کے حق سے کم دینا ظلم اور ناجائز ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں بھائیوں کا باپ کی موروثہ جائیداد اور  اس کی آمدن  سے  بہنوں کو محروم رکھنا گناہ کبیرہ  اور حرام ہے، بہنوں کے حصے کی آمدن بھائیوں کے لئے حلال نہیں۔ لہذا بھائیوں پر لازم ہے کہ جلد از جلد  بہنوں کا شرعی حق ان کو  دیدیں۔

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، قال: كنت آخذا بزمام ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم في أوسط أيام التشريق، أذود عنه الناس، فقال: " يا أيها الناس، هل تدرون في أي يوم أنتم؟ وفي أي شهر أنتم؟ وفي أي بلد أنتم؟ " قالوا: في يوم حرام، وشهر حرام، وبلد حرام، قال: " فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، إلى يوم تلقونه "، ثم قال: " اسمعوا مني تعيشوا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنه لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه....".

أخرجه الإمام أحمد في مسنده في حديث عم أبي حرة الرقاشي (34/ 299) برقم (20695)، ط. مؤسسة الرسالة، الطبعة الأولى:1421 هـ =2001 م)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307102267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں