بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کا میراث سے دستبردارہونا


سوال

ایک آدمی کی کئی دکانیں ہیں ان کےوفات کے بعدبیٹوں نےان دکانوں کوآپس میں تقسیم کیااوردودکانیں اپنی والدہ کےلیےچھوڑدی تھیں تاکہ وہ کرایہ لیتی رہیں،اب والدہ فوت ہوگئی ہیں  اوران دکانوں کی کرائے کی کچھ رقم رہ گئی ،

1:اب سوال یہ کہ جس بیٹے کے ساتھ ماں رہ رہی تھی وہ اس رقم کاحق دار ہے یاتمام بیٹوں پرتقسیم کرنا ضروری ہے؟جب کہ والدہ کے والدین مرحومہ کی زندگی میں ہی وفات پاچکے ہیں ۔

2:دوسراسوال یہ ہے کہ اس رقم کو والدہ کےنام پر صدقہ کیاجائے توکیایہ جائز ہے؟

نوٹ:کل 17دکانیں تھیں،ورثاء میں والدہ ،پانچ بھائی اورتین بہنیں تھیں ،بہنوں نے والد کی میراث میں اپناحصہ رضامندی سے چھوڑدیا،یعنی کچھ بھی نہیں لیا،اور ان 17دکانوں میں سے دودکانیں والدہ کےلیے چھوڑدی تھیں ۔

جواب

1:واضح رہے کہ والد مرحوم کی جائیداد میں تمام ورثاء اپنےاپنےشرعی حصوں  کے بقدرحق دارہیں اوروالدکےکل ترکہ کوشرعی اعتبارسےتمام ورثاءمیں تقسم کرناضروری ہے،بہنوں نےاپنی رضامندی سےوالدکی میراث میں اپنے حصےکوچھوڑدیاتھاتوبغیرکوئی عوض کےمیراث سےدستبردارہونا شرعاًمعتبرنہیں، لہذا بہنوں کا حصہ بھی اس جائیدادمیں بدستورباقی ہے، اگروہ اپناحصہ وصول کرنانہیں چاہتیں  تواس کاطریقہ یہ  ہےکہ یاتواپنےحصے کےعوض کوئی معمولی چیزوصول کرلےاوربقیہ حصےسےدستبردارہوجائیں یااپناحصہ وصول کرکےجس وارث کودیناچاہیں دےدیں،اوراگرچاہےتوخوداستعمال کریں،لہذا صورتِ مسئولہ میں والد کی جائیداد ازسرنوتقسیم کرکے بہنوں کوحصہ دینا ضروری ہے ۔

2:چوں کہ والدہ  مرحومہ کی متروکہ دکانیں ان کی شوہر کی وراثت ہے، لہذا ان دکانوں ،یاان کےکرایوں میں ان کےشوہر کے تمام ورثاء ،بیٹے،بیٹیاں  حق دارہیں  ،اسی طرح والدہ کا جو اپناذاتی ترکہ ہےاس میں بھی تمام ورثاءکاحق ہےنہ کہ صرف اس بیٹے کاجس کے ساتھ والدہ مرحومہ رہ رہی تھی ۔

3: تمام ورثاء کی رضامندی کے بغیر دکانوں سےحاصل شدہ رقم  صدقہ کرنا درست نہیں ہے، صدقہ کرتے وقت تمام بھایئوں اوربہنوں کی رضامندی ضروری ہے ،اور بہتریہ ہے کہ ہروارث کو اس کاحصہ دےدیاجائے پھر جو وارث  چاہے توصدقہ کرے ،تاہم ان پرصدقہ کرنالازم نہیں ہے۔

تکملہ ردالمحتار ميں ہے:

"الارث جبري لايسقط بالإسقاط."

(فصل فی دفع الدعاوی ،ج:8، ص:505،ط:سعید)

غمزعیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر میں ہے:

 "لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك."

(الفن الثالث ،باب مایقبل الاسقاط من الحقوق ،ج:3،ص:354،ط:دارالکتب العلمیہ)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"وذهب الحنفية إلى أن التركة: هي ما يتركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعينه."

(الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ ،فصل فی الترکہ ،ج:11،ص:206،ط: ادارۃ الشؤن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں