بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو دو پتھر دے کر کہنا تم میری بہن ہو


سوال

میرا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا ہو ا، رات کے وقت، تو مجھے بہت غصہ آیا، اور باہر جا کردو عدد پتھر لے کر دے دیئے، اور بولا آج کے بعد سے تم میری بہن ہو، اس کے بعد بیوی اپنے گھر چلی گئی، اور میں نے واپس آنے کو بولا، تو اس کے والد نے بولا طلاق ہوگئی ، نیت اس وقت میری طلاق کی تھی ، اب اس سے کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا اپنی بیوی کو دو پتھر لا کر دے کر یہ کہنا کہ تم میری بہن ہو، اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے  ، بشرطیکہ نکاح کے ٹوٹنے کا کوئی دوسرا سبب نہ پایا گیاہو، البتہ اپنی بیوی کو ماں اور بہن کہنا شریعت کی رو سے درست نہیں ہے، فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اپنی بیوی کو ماں، بہن یا بیٹی کہنا مکروہ ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے :

"وعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية وأراد ب ما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقا كما قدمناه لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر كما مر"۔

(ج:3،ص:247،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

'' ( وإن نوى بأنت علي مثل أمي ) أو كأمي وكذا لو حذف علي، خانية ( براً أو ظهاراً أو طلاقاً صحت نيته ) ووقع ما نواه؛ لأنه كناية ( وإلا ) ينو شيئاً أو حذف الكاف، ويكره قوله: أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه۔

(قوله:حذف الكاف ) بأن قال أنت أمي، ومن بعض الظن جعله من باب زيد أسد، در منتقى عن القهستاني، قلت: ويدل عليه ما نذكره عن الفتح من أنه لا بد من التصريح بالأداة، (قوله: لغا )؛ لأنه مجمل في حق التشبيه، فما لم يتبين مراد مخصوص لا يحكم بشيء، فتح (قوله: ويكره الخ ) جزم بالكراهة تبعاً للبحر و النهر، والذي في الفتح: وفي أنت أمي لا يكون مظاهراً، وينبغي أن يكون مكروهاً، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه، وفيه حديث رواه أبو داود أن رسول الله سمع رجلاً يقول لامرأته: يا أخية، فكره ذلك ونهى عنه، ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقول: هو ظهار؛ لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ يا أخية استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليعين ظهاراً حيث لم يبين فيه حكماً سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهاراً من التصريح بأداة التشبيه شرعاً، ومثله أن يقول لها: يا بنتي أو يا أختي ونحوه ''۔

(ج:3،ص:470،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں