بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہشتی زیور میں نماز سے متعلق ایک مسئلہ کی دلیل


سوال

بہشتی  زیور  سے  ایک  مسئلہ  بیان کیا  جاتا ہے کہ اگر کپڑے مکمل ناپاک ہوں اور  پاک کپڑے  میسر نہ  ہوں تو  برہنہ نماز  پڑھنے اور ناپاک کپڑے پہن کر پڑھنے میں اختیار ہے۔ اور برہنہ پڑھ لینا بہتر ہے۔ اس بارے میں برہنہ نماز پڑھنے کی کیا دلیل ہے؟

جواب

یہ  مسئلہ بہشتی زیورمطبوعہ مکتبة البشری کراچی  حصہ دوم نماز کی شرطوں کا بیان (ص: ۱۹۹، ۲۰۰) پر موجود ہے، لیکن اس میں  یہ بات نہیں کہ برہنہ پڑھ لینا بہتر ہے، بلکہ   اس کے برعکس یہ ہے کہ :

" لیکن ننگی ہوکر نماز پڑھنے سے اسی نجس کپڑے کو پہن کر  پڑھنا  بہتر ہے۔"

مذکورہ مسئلہ میں اختیار دینا  امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ کامسلک ہے، اس کی دلیل یہ ہےکہ عام حالات میں  ننگے بدن نماز پڑھنا اور مکمل نجس کپڑے میں نماز پڑھنا برابر ہے  کہ دونوں صورتوں میں نماز نہیں ہوگی، اور  مجبوری کی حالت میں (کہ نمازی کے پاس ایک ہی جوڑا ہو، اور بھی ناپاک ہو، پاک کرنے کا کوئی انتطام نہ ہوسکتا ہو )     ایک  کی رعایت رکھنے سے دوسرے کا ترک لازم آتا ہے، لہذا  حالتِ  اضطرار میں بھی دونوں  کی حیثیت برابر ہوگی  اور  نمازی  کو  اختیار ہوگا کہ   چاہے تو  ستر ِعورت کی رعایت رکھتے ہوئے نجس کپڑوں  ہی میں نماز پڑھے اور چاہے تو کپڑوں کے  ناپاک ہونے کی رعایت رکھتے ہوئے   ننگے بدن نماز پڑھے، دونوں صورتوں میں نماز ہوجائے گی ، اعادہ واجب نہیں ہوگا۔  البتہ اس اضطراری حالت میں ان ہی نجس کپڑوں میں پڑھنا افضل ہے۔

نیز ملحوظ رہے کہ  مذکورہ دونوں حالتوں میں برابری کا حکم اور  اختیار اس وقت ہے جب کہ نمازی تنہا ہو، اگر ارد گرد دیگر لوگ بھی موجود ہوں اور برہنہ نماز ادا کرنے میں  فتنے کا اندیشہ ہو تو ناپاک کپڑے میں ہی نماز ادا کرنی چاہیے۔

" ولو كان معه ثوب نجس فلا يخلو إما أن كان الربع منه طاهرا، وإما أن كان كله نجسا فإن كان ربعه طاهرا لم يجزه أن يصلي عريانا، بل يجب عليه أن يصلي في ذلك الثوب؛ لأن الربع فما فوقه في حكم الكمال، كما في مسح الرأس وحلق المحرم ربع الرأس، وكما يقال: رأيت فلانا وإن عاينه من إحدى جهاته الأربع، فجعل كأن الثوب كله طاهر وإن كان كله نجسا أو الطاهر منه أقل من الربع - فهو بالخيار في قول أبي حنيفة وأبي يوسف، إن شاء صلى عريانا، وإن شاء مع الثوب، لكن الصلاة في الثوب أفضل وقال محمد: لا تجزئه إلا مع الثوب.

(وجه) قوله أن ترك استعمال النجاسة فرض، وستر العورة فرض، إلا أن ستر العورة أهمهما وآكدهما؛ لأنه فرض في الأحوال أجمع، وفرضية ترك استعمال النجاسة مقصورة على حالة الصلاة، فيصار إلى الأهم، فتستر العورة، ولا تجوز الصلاة بدونه، ويتحمل استعمال النجاسة؛ ولأنه لو صلى عريانا كان تاركا فرائض منها ستر العورة والقيام والركوع والسجود، ولو صلى في الثوب النجس كان تاركا فرضا واحدا وهو ترك استعمال النجاسة فقط، فكان هذا الجانب أهون.وقد قالت عائشة - رضي الله عنها -: «ما خير رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بين شيئين إلا اختار أهونهما» ، فمن ابتلي ببليتين فعليه أن يختار أهونهما.

(ولهما) أن الجانبين في الفرضية في حق الصلاة على السواء، ألا ترى أنه كما لا تجوز الصلاة حالة الاختيار عريانا لا تجوز مع الثوب المملوء نجاسة، ولا يمكن إقامة أحد الفرضين في هذه الحالة إلا بترك الآخر؟ فسقطت فرضيتهما في حق الصلاة، فيخير فيجزئه كيفما فعل، إلا أن الصلاة في الثوب أفضل لما ذكر محمد."

(بدائع الصنائع: كتاب الصلاة، فصل شرائط أركان الصلاة (1/ 117)،ط. دار الكتب العلمية، الطبعة الثانية، 1406هـ - 1986م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں