بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع میں اقالہ کے لیے جانبین کی رضامندی ضروری ہے


سوال

 میرے والد رحمہ ا للہ نے 6مہینہ کے وقت کے لیے کچھ رقم قرض لی تھی، لیکن رقم لینے کے 1مہینہ بعد ان کا انتقال ہو گیا ،وقت مقررہ کے بعد بھی ایک سال کا عرصہ گزرچکا تھا ،اور میں وہ رقم واپس نہ کر سکا،میری ایک پراپرٹی تھی اس کو میں مستقل فروخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا،  لیکن وہ فروخت نہیں ہو رہی  تھی،  اس کے بارے میں ان صاحب کو بھی معلوم تھا جن کا قرضہ والد کے ذمے تھا، اس کے علاوہ میری ایک دکان تھی جس پر میرا کاروبار تھا ،ان صاحب نے مجھ پر بہت پریشر کر کے اس کو فروخت کرنے کا زور دیااور میں نے بھی بہت مجبوری میں ہاں  کر دی ،دکان کو فروخت کرنے میں ہمارے گھر سے کوئی بھی راضی نہیں تھا ،ہم نے ان سے بہت درخواست کی، لیکن وہ نہیں راضی ہوئے، اور پھر انہوں نے خود اس کو فروخت کر دیا ،جس پر ہم سب گھر والو ں  نے بھی رضا مندی ظاہر کردی ،اس لیے  کہ گھر میں بھی ان کی وجہ سے بہت پریشانی رہتی تھی۔

اس کو فروخت کرنے کے 15دن بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری پہلی پراپرٹی فروخت ہو گئی، اس کی رقم بھی میرے پاس آگئی ،پھر وہ رقم  لے کر میں ان کے  پاس گیا کہ آپ برائے مہربانی مجھے میری دکان واپس کروادیں، لیکن جن صاحب کو فروخت کی ہے ،اب وہ راضی نہیں ہیں اور ہم نے ان سے ایڈوانس بھی لے لیا ہے ،لیکن  کسی معاہدہ پر دستخط نہیں ہوئےہیں، تو کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم ان سے زبردستی معاہدہ پر دستخط نہ لیں اور ان کو ان کی رقم واپس کر کے معاہدہ منسوخ   کردیں؟ اور جن کو فروخت کی ہے ان سے ہم نے بھی گزارش کی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ  ہم نے بھی آپ کو رقم دینے کے لیے اپنی کچھ پراپرٹی فروخت کی ہے تو اس وجہ سے ہما ری مجبوری ہے ۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  چوں کہ خریدار مذکورہ معاہدہ اورسوداختم کرنےپر رضامند نہیں ہے، اس  لیے مذکورہ سودا  اور معاہدہ شرعًا یک طرفہ ختم نہیں کیا  جا سکتا ، کیوں کہ مذکورہ سودا اور معاہدہ ختم  کر نے کے  لیے دو نوں (خریدار اور بیچنے والے) کا راضی ہو نا ضروری ہے، البتہ اگر خریدار اور بیچنے والا مذکورہ سودا ختم کرنے پر رضامند ہو جا ئیں تو اس صورت میں جتنی قیمت پر بیچنے والےنے  دکان  فروخت کی تھی ،اتنی ہی رقم خریدار کو واپس کرنی ہوگی۔

فتح القدیر میں ہے:

"وإذا حصل الإيجاب والقبول لزم البيع ولا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية."

(كتاب البيوع ٢٥٧/٦، ط:دار الفکر)

 الہدایۃ  میں ہے:

"الإقالة جائزة فی البیع بمثل الثمن الأول" لقولہ علیہ الصلاة والسلام: "من أقال نادما بیعتہ أقال اللہ عثرتہ یوم القیامة" ولأن العقد حقہما فیملکان رفعہ دفعا لحاجتہما "فإن شرطا أکثر منہ أو أقل فالشرط باطل ویرد مثل الثمن الأول."

(كتاب البيوع ،باب الإقالة، ١١٤/٣،ط: دارالدقاق)

فتح القدیر میں ہے:

"لأن أحد المتعاقدین لا ینفرد بالفسخ کمالا ینفرد بالعقد۔(يصدقه لأن أحد المتعاقدين لا ينفرد ‌بالفسخ) فإنكاره إن كان فسخا من جهته لا يحصل به الإنفساخ."

 ( کتاب القضاء، باب التحکیم ،٣٣٤/٧،ط: دارالفکر)

شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الثالث انھالاتفسدالشرط الفاسدوان لم تصح تعلیقھا به بل یکون الشرط لغوًافلوتقایلاعلٰی ان یوخرالمشتری الثمن سنة أوعلٰی ان یحط منه خمسین صحت الإقالة لاالتاخیروالحط."

(الفصل الخامس في الإقالة :المادة ،١٩،ص:٩١)

فتاوی شامی ہے:

"(‌تصح ‌بمثل ‌الثمن الأول وبالسكوت عنه) ويرد مثل المشروط ولو المقبوض أجود أو أردأ،يكون فسخا ولذا يثبت للبائع رده على بائعه بخلاف ما إذا كان بالتراضي فإنه بيع جديد.(قوله: لم تعد الكفالة فيهما) أي في الإقالة والرد بعيب بقضاء اهـ. ح. فتحصل أن الأجل والكفالة في البيع بما عليه لا يعودان بعد الإقالة وفي الرد بقضاء في العيب يعود الأجل، ولا تعود الكفالة اهـ. ط. قلت: ومقتضى هذا أنه لو كان الرد بالرضا لا تعود الكفالة بالأولى، وذكر الرملي في كتاب الكفالة أنه ذكر في التتارخانية عن المحيط، عدم عودها سواء كان الرد بقضاء أو رضا وعن المبسوط أنه إن كان بالقضاء تعود وإلا فلا."

(كتاب البيوع ،‌‌باب الإقالة ،١٢٥/٥،ط: دار الفكر)

فیہ ایضا:

"لأن من شرائطها إتحاد المجلس ورضا المتعاقدين۔و في الرد : (قوله: ورضا المتعاقدين) لأن الكلام في رفع عقد لازم، وأما رفع ما ليس بلازم فلمن له الخيار بعلم صاحبه لا برضاه بحر."

(کتاب البيوع، باب الإقالة ،١٢١/٥، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

" الإقالة جائزۃ فی البیع بمثل الثمن الأوّل فإن شرط أکثر منه أو أقل فالشرط باطل ویرد مثل الثمن الأول."

(کتاب البیوع ،باب الإقالة،٤٨٦/٦،ط: دارالفکر )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100196

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں