بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بائع کا مشتری سے فروخت کیے ہوئے موبائل کو کم قیمت پر خریدنے کا حکم


سوال

مجھے کچھ رقم کی ضرورت تھی،میں نے اپنے ایک دوست سے جوکہ موبائل کا  کاروبارکرتاہے ،اس سے کہا کہ مجھےپیسے دے دیں ،انہوں نے کہاکہ میرے پاس رقم تو نہیں ہے،البتہ میں آپ کےلیے ایک ترتیب بنادیتاہوں،چنانچہ انہوں نے مجھے 340000روپے کے موبائل دے دئیے اورمجھ سے 20 دن بعد کے چیک وصول کیے ( مذکورہ رقم ان کو20 دن بعد اداکرنی ہوگی)، لیکن اسی دن اسی وقت اس نے مجھ سے وہی موبائل( جو کہ 3لاکھ 40 ہزارروپے کے تھے ) 3لاکھ روپے کے واپس خرید لیے اورمجھے 3لاکھ روپے نقد دے دیئے،20 دن کے بعد جب اس کی 3لاکھ 40 ہزارروپے کی ادئیگی کاوقت آیاتو میرے پاس اس کی ادائیگی کےلیے رقم نہیں تھی ( جس سے اس کی قرض رقم 680000 روپے ہوگئی ) تب انہوں نے مجھے دوبارہ 3لاکھ 40 ہزارروپے کاموبائل دئیے اور20 دن کا وقت دیااوردوبارہ وہی موبائل 3لاکھ روپےکے خریدلیے اور40 ہزارروپے نقد لےلیے ( جس سے اس کی قر ض رقم 340000روپے بچ گئی )۔

یہی معاملہ 5 سال چلتارہا اوراس کی رقم آخر کار27 لاکھ روپے تک پہنچ گئی جس کے بعد ہماراان سے ماہانہ 50 ہزار روپے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دو سال میں پوری رقم اداکرنے کا معاہدہ ہوا،اب سوال یہ ہے کہ ہمارے مذکورہ معاملہ کا  شرعاًکیاحکم ہے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں چوں کہ سائل  کا مقصد موبائل فون کا خریدنانہیں تھا، بلکہ اُسے نقد پیسوں کی ضرورت تھی ،تو سائل کے لیے  اپنے دوست  سےادھار پر20دن کےلیے 340000روپے کے موبائل خریدکر دوبارہ وہی موبائل اسی دن  3لاکھ  کافروخت کرنا شرعاً ناجائز  ہے؛کیوں کہ  مذکورہ  کاروباری شخص سودی قرضہ کے لئے بطورِ حیلہ کے موبائل فون کا لین دین کررہا ہے،جو کہ بیع عینہ کی  ایک صورت ہے،اور بیع عینہ شرعاً مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے،کیونکہ یہ  سود خوری ہی کا ایک طریقہ ہے، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے عقد کو رسوائی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے

لہذا عاقدین پرلازم ہے کہ مذکورہ معاملہ  فی الفور ختم کردیں،اورمذکورہ شخص کا جو اصل رقم ہے وہ ان کو دے دے،اس کے علاوہ قرض وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سےجو سودلازم کیا گیا،وہ چوں کہ ناجائز اورحرام ہے ؛لہذا وہ سودی رقم ادا کرنا سائل کے ذمہ لازم نہیں ہے، اور دنوں  کو چاہیے کہ اس پرسچے دل سے توبہ واستغفار کریں،سائل پر لازم تھا کہ وہ معاملہ کرنے سے پہلے شرعی نقطہ نظر معلوم کرتا،اس سلسلے میں کوتاہی پر بھی توبہ واستغفارکرے اورآئندہ کے لیے احتیاط کرے۔

حدیث مبارکہ میں ہے:

"عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: إذا ‌تبايعتم ‌بالعينة، وأخذتم أذناب البقر، ورضيتم بالزرع، وتركتم الجهاد، سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم."

(سنن أبي داؤد،باب في النھي عن العینة،ج:5،ص:332،ط:دار الرسالة العالمیة)

ترجمہ:"حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا” کہ جب تک تم بیع عینہ کرتے رہوگے اور جانوروں کی دیکھ بھال میں لگے رہوگے اور زراعت میں گم ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ دوگے تو اللہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کردے گا، یہاں تک کہ تم دوبارہ دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولايرغب المقرض في الإقراض طمعًا في فضل لايناله بالقرض فيقول: لاأقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهمًا وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهمًا وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثًا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما، كذا في المحيط، وعن أبي يوسف: العينة جائزة مأجور من عمل بها، كذا في مختار الفتاوى هندية. وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال عليه الصلاة والسلام: «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم»."

(باب الصرف،ج:5،ص:273،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وصورة ‌العينة أن يشتري عينا بالنسيئة بأكثر من قيمته ليبيعه بقيمته بالنقد فيحصل له المال، كذا في المبسوط."

(کتاب الشرکة،ج:2،ص:312،ط:دار الفکر)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

(باب لعن آكل الربا ومؤكله، ج:3،ص:1219، رقم الحديث:1598، ط: دار إحياء التراث العربي ببيروت)

 

ترجمہ:"حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں"

رد المحتار  علی ھامش  الدرالمختارمیں ہے:

" كل قرض جر نفعا حرام."

(باب المرابحة والتولية، ‌‌فصل في القرض،ج:5،ص:166، سعيد)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144403100484

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں