میں ملازم آدمی ہوں ایک دوکاندار سےپورامہینہ سودا لیتا رہتا ہوں ،سودے کا ریٹ طے نہیں کیا جاتا،دوکاندار لکھتا رہتا ہے،مہینہ کے آخر میں حساب کتاب کر کے معاملہ صاف کر لیتے ہیں، کیا اس طرح معاملہ درست ہوتاہے؟
صورت مسئولہ میں اگر مال کی قیمت پہلے سےطے نہیں ہے تو یہ معاملہ درست نہیں ہے، اور اگر ریٹ طے ہے اور ساتھ ساتھ لکھتا بھی رہتا ہے، تو فقہاء کرام کے ذکر کردہ بیع الاستجرار کےاصول پر اس طرح معاملہ کرنے کی شرعاً گنجائش ہے۔
الدر المختار ورد المحتار میں ہے :
"ما يستجره الإنسان من البياع إذا حاسبه على أثمانها بعد استهلاكها جاز استحسانا۔۔۔(قوله: ما يستجره الإنسان إلخ) ذكر في البحر أن من شرائط المعقود عليه أن يكون موجودا، فلم ينعقد بيع المعدوم ثم قال: ومما تسامحوا فيه، وأخرجوه عن هذه القاعدة ما في القنية الأشياء التي تؤخذ من البياع على وجه الخرج كما هو العادة من غير بيع كالعدس والملح والزيت ونحوها ثم اشتراها بعدما انعدمت صح. فيجوز بيع المعدوم هنا".
(کتاب البیوع،516/4،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506101047
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن