بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بدعتی پیر کے ہاتھ پر بیعت کرنے کاحکم


سوال

میرے 4بیٹے کسی پیر کے مرید  ہوگئے ہیں، وہ چاروں اپنی بیویوں سمیت اس پیر کے کہنےکے مطابق  رات کو 2بجے قبرستان جاتے ہیں اور اپنے پیر کے ماں باپ کی قبر پر سر پر مٹکے رکھ کر  قبروں پر طواف کرتے ہیں اور اپنے پیر کے باپ کی تصویر کے آگےہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں اور وظائف وغیرہ پڑھتے ہیں، اس پیر نے میرے بڑے بیٹے سے کہاکہ تیری بیوی تیرے لئے ٹھیک نہیں ہے، لہذااسے طلاق  دیدے اس نے اپنی بیوی کو کہا اپنی ماں کے گھر جاؤ۔وہ چلی گئی تواس نے فون پر بیوی کو 1طلاق دےدی اور اس نے اس کے ماں گھر کورٹ کا چھپا ہوا پیپر بھیج دیا اور اس پر 3مرتبہ سائن کردیے ۔مجھ سے بھی وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ ہمارے پیر سے ملو گے تو ہم سے بولو ورنہ نہیں ،کیا ایسے بیٹے مسلمان ہیں؟ اگر نہیں تو کیا وہ وراثت میں حصہ دار ہوں گے ؟

جواب

 واضح رہے کہ کسی  متبع سنت پیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا  ،ان کی مجلس میں شرکت کرنا ، ان کے بتائے ہوئے اوراد   و وظائف کااہتمام کرنا اور ان کی صحبت اختیار کرنا شرعا ًدرست ہےاوردنیا و آخرت کےلحاظ سے ترقی  کا باعث ہے ،لیکن کسی فاسق، فاجر، یابدعتی شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنا اس کی صحبت اختیار کرنا اور اس کے بتائے ہویے غلط افعال اختیار کرنا  ناجائز اور حرام ہے، بلکہ ایسے فساق وفجار کی مشابہت سےبھی منع کیاگیاہے،لہذا صورت مسئولہ  میں چونکہ مذکور ہ پیر کے بتائے ہوئے افعال:

1۔اپنے ماں باپ کی قبروں کے طواف کاحکم کرنا ،

2۔اور اپنے باپ کے تصویر کے آگے ہاتھ جوڑکر کرکے کھڑے ہونے کاحکم،

3۔اور طواف کرتے وقت وظائف پڑھنے کا حکم،

  4۔ایسی چیز کاحکم دینا جو فتنہ کاباعث ہو جیسے اس کاکہنا کہ تیری بیوی تیرے لیے ٹھیک نہیں اسے طلاق دیدے۔۔وغیرہ ، درست نہیں  ہیں لہذا اس پیر سے تعلق فوراًمنقطع کرنا لازم ہے ۔

نیز سائل کے بیٹے اگر یہ افعال بطور عبادت   کرتے  ہیں  تو یہ  شرک اور کفر ہے  ،اور اس صورت  میں وہ مسلمان نہیں رہیں گے ،اور اگر اسی حالت میں رہتے ہوئے سائل(یعنی ان کے والد ) کا انتقال ہوجاتاہے تو وہ اپنے والدکی میراث کے حقدار نہیں ہوں گے، بلکہ  میراث سے محروم  ہوجائیں  گے،اور اگر بطور عبادت نہ بھی کرتے ہو ں بلکہ بطور تعظیم کرتے  ہوں  پھر بھی یہ افعال حرام اور گناہ کبیرہ ہیں ۔اور بیٹوں کا  اپنے والد سےیہ کہنا   کہ"ہمارے پیر سے ملو ورنہ ہم سے بات نہ کرو"انتہائی غلط ہے بلکہ ان کو چاہیے کہ والد سے حسن سلوک کا معاملہ کریں اور خود بھی اپنی  آخرت بچانے کیلئے  اس پیر سے قطع تعلق  کریں ۔

مشکاۃ شریف میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے  روایت منقول  ہے :

" وعن ابن عباس قال: لعن رسول اﷲ صلی الله علیه وسلم زائرات القبور والمتخذین علیها المساجد والسرج".

(مشکاۃ المصابیح،الفصل الثاني،ج:1،ص:230،حدیث نمبر:740،ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

وفیه أیضا:

"وعن جندب قال:سمعت رسول الله ۔صلي الله عليه وسلم ۔يقول:الاوان من كان قبلكم كانوايتخذون قبور انبياءهم وصالحيهم مساجد الافلاتتخذوا القبور مساجد اني انهاكم عن ذلك."

(مشکاۃ المصابیح،الفصل الاول،ج:1،ص:323،حدیث نمبر:713،ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

 وفي الفتاوى الهندية:

"والتواضع ‌لغير ‌الله حرام كذا في الملتقط."

(الباب الثامن والعشرون،ج:5،ص:365،المطبعة الكبري الأميرية ببولاق مصر)

فتاوی شامی ميں ہے:

"وكذا) ما يفعلونه من (تقبيل الأرض بين يدي العلماء) والعظماء فحرام والفاعل والراضي به آثمان لأنه يشبه عبادة الوثن وهل يكفران: على وجه العبادة والتعظيم كفر وإن على وجه التحية لا وصار آثما مرتكبا للكبيرة."

(كتاب الحظر والاباحۃ،ج:6،ص:375،ط:سعید)

وفي مرقاة المفاتيح :

"سبب لعنهم إما لأنهم كانوا يسجدون لقبور أنبيائهم تعظيما لهم، وذلك هو ‌الشرك ‌الجلي."

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،ج:2،ص:600،دار الفكر، بيروت - لبنان)

قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوْآ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾  [الإسراء: 23، 24]

         ترجمہ: اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا ، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انھوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔( ازبیان القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"و موانعه ۔۔۔أربعة :الرق ،والقتل ،واختلاف الدين،أي : إسلاما وكفرا ،والرابع  اختلاف الدارين."

( کتاب الفرائض،ج6،ص:766، 767،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں