بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کون سے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے؟


سوال

جیسا کہ فتاوی دیوبند اور احسن الفتاوی میں ذکر کیا گیا ہے کہ کسی بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے, یہاں پر کون سا بدعتی مراد ہےشرکی بدعتی؟ یا پھر یہ رسموں (مروجہ حیلا اسقاط،سویم،چہلم) وغیرہ کرنے والا بدعتی؟

جواب

جو امام ایسی بدعات میں مبتلا ہو جو کفر کی حد تک نہ پہنچتی ہو  تو اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنا مکروہِ  تحریمی ہوگا۔ جن فتاوی جات میں بدعتی کی اقتدا میں نماز مکروہِ  تحریمی لکھی ہے، اس کا محل یہی ہے۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

’’باقی چوں کہ بدعتی بدعتی میں فرق  ہوتا ہے،  بعض بدعات حدِ کفر و شرک تک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں، اگر ایسے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو اعادہ کرنا ضروری ہے،  یہی صورت تطبیق کی ہوسکتی ہے یا جس نے اعادہ کا حکم دیا احتیاط ہو یا اختلاف روایات اور بد عت فی العقیدہ میں بھی  تفاوت درجات ہے۔ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ عقیدہ اس کا حد کفر کو پہنچا ہوا ہے اس وقت تک اس کے پیچھے فساد نماز کا حکم نہ کیا جاوے گا‘‘.  (3/168، دارالاشاعت)

ہاں اگر کسی امام کے متعلق یقین سے معلوم ہوکہ وہ بلاتاویل شرکیہ عقائد میں مبتلا ہے تو  ایسے امام کے عقیدے کا علم ہونے کے باوجود اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم ہوگا۔

فتاوی شامی 1/ 559):

"(ويكره) تنزيهاً (إمامة عبد ... وفاسق ...  ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة، وكل من كان من قبلتنا (لايكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته؛ لكونه عن تأويل وشبهة بدليل قبول شهادتهم ، إلا الخطابية ومنا من كفرهم (وإن) أنكر بعض ما علم من الدين ضرورة (كفر بها) كقوله إن الله تعالى جسم كالأجسام وإنكاره صحبة الصديق (فلا يصح الاقتداء به أصلا) فليحفظ  (وولد الزنا)  هذا إن وجد غيرهم، وإلا فلا كراهة، بحر بحثاً. وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة ... زاد ابن ملك: ومخالف كشافعي، لكن في وتر البحر إن تيقن المراعاة لم يكره، أو عدمها لم يصح، وإن شك كره.

 (قوله: ويكره تنزيهاً إلخ) لقوله في الأصل: إمامة غيرهم أحب إلي، بحر عن المجتبى والمعراج، ثم قال: فيكره لهم التقدم؛ ويكره الاقتداء بهم تنزيها؛ فإن أمكن الصلاة خلف غيرهم فهو أفضل، وإلا فالاقتداء أولى من الانفراد ...  (قوله: بل بنوع شبهة) أي وإن كانت فاسدةً كقول منكر الرؤية بأنه تعالى لا يرى لجلاله وعظمته ... (قوله: إن وجد غيرهم) أي من هو أحق بالإمامة منهم (قوله: بحر بحثاً) قد علمت أنه موافق للمنقول عن الاختيار وغيره (قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع؛ لحديث: «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي». قال في الحلية: ولم يجده المخرجون، نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعاً: «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم»". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201694

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں