میں ایک دورہ حدیث کا طالب ِعلم ہوں ،سات ماہ قبل میری شادی ہوئی،میری بیگم اور والدہ کاتعلق اچھا نہیں ہوسکا،منجملہ وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ جوان جھگڑوں کاپیش خیمہ بنی وہ یہ کہ میرے والدین جو علم دین اور شریعت سے ناواقف ہیں ،وہ سوچتے ہیں کہ میری بیوی پر ساس اور سسر کی خدمت پہلے اور شوہرکی بعدمیں لازم ہے اور رواج کی دلیل دیتے ہوئےکہتے ہیں کہ ہر کوئی گھرکے برتن ،جھاڑو پونچہ اور کھاناوغیرہ بناتاہے،ایسا بھی نہیں کہ وہ کوئی کام نہیں کرتی ،بلکہ وسعت سے بڑھ کرکرتی ہے،کیاشریعت میں بہوپر ساس اور سسرکی خدمت لازم ہے ؟اگرچہ وہ کھانابنانا،پورےگھرکاجھاڑوپونچہ اورپورے گھر کےبرتن دھونےسے متعلق ہو،مزید یہ کہ بیوی کے مطالبہ پر علیحدہ گھر میں رہنے پر مجھے ملامت کیا جائےتو اس ملامت کی حیثیت کیاہے؟
یادرہے کہ میرےوالدین بوڑھے بھی نہیں ،بلکہ وہ تو اپنے دوسرے بچوں پر فخر بھی کرتے ہیں جو کہ ابھی چھوٹے ہیں ،براہ کرم میری راہ نمائی فرمائیں،میں صرف ایک دن جمعرات کوگھر جاتاہوں ،بقیہ ایام مدرسہ میں گزارتاہوں ،لیکن مجھے تنگ کیا جاتاہےکبھی فون کے ذریعہ کبھی روبرو۔
واضح رہے کہ میاں بیوی کا باہمی اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت اور ہمدردی و ایثار کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کے حقوق میں توازن رکھا ہے اور حسنِ معاشرت کا حکم دے کر یہ واضح کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ باہم اخلاقیات اور ایثار اور ہم دردی سے چلتا ہے، کچھ چیزیں بیوی کے ذمہ لازم نہیں کیں، اور کچھ شوہرکے ذمہ لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانۃً اور اخلاقاً یہ چیزیں دونوں کی ایک دوسرے پر لازم ہیں۔
لہذا بہو کے ذمہ اپنے ساس اور سسر کی خدمت اگرچہ شرعًا واجب نہیں ہے اور خدمت نہ کرنے سے وہ گناہ گار نہیں ہوگی، لیکن اَخلاقی طورپر بہو کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ساس اور سسر اُس کے شوہر کے ماں باپ ہیں، لہٰذا جس طرح وہ اَپنے ماں باپ کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کے ماں باپ کی خدمت،گھریلوی کام کاج وغیرہ اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔
لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر کا اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر خدمت پر مجبور کرنا اور اس پر ظلم و جبر کرنا درست نہیں ہے،(بلکہ خود شوہر پر اپنے والدین کی خدمت کرنا اور ان کے لیے کھانے کا انتظام کرنا ضروری ہے) یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے،نہ یہ درست ہے کہ تمام ذمہ داریاں بہوپرڈال دی جائیں اورنہ یہ کہ بیوی اپنےشوہر یا ساس،سسرکی خدمت سے بھی دامن کش ہوجائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہماکے نکاح کے بعد کام کی تقسیم اس طرح فرمائی تھی کہ باہرکاکام اورذمہ داریاں حضرت علی رضی اللہ عنہ انجام دیں گے اورگھریلوکام کاج اورذمہ داریاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے سپرد ہوں گی۔ جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی اس ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں تودوسری خواتین کے لیے کیوں کراس کی گنجائش ہوسکتی ہے؟
اسی طرح ساس اور سسر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھیں ، اسے عزت دیں، ذلیل نہ کریں، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہوں، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس و سسر کو اپنے ماں باپ کی طرح سمجھے اور ان کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وحقه عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به،
(قوله في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به."
(کتاب النکاح، باب القسم بین الزوجات، ج: 3، ص: 208، ط: سعید)
زاد المعاد میں ہے:
"قال ابن حبيب في " الواضحة ": ( «حكم النبي صلى الله عليه وسلم بين علي بن أبي طالب رضي الله عنه وبين زوجته فاطمة رضي الله عنها حين اشتكيا إليه الخدمة، فحكم على فاطمة بالخدمة الباطنة خدمة البيت وحكم على علي بالخدمة الظاهرة» ) ثم قال ابن حبيب والخدمة الباطنة: العجين والطبخ والفرش وكنس البيت واستقاء الماء وعمل البيت كله."
(المجلد الخامس، فصل في حكم النبي صلى الله عليه وسلم في خدمة المرأة لزوجها، ج: 5، ص: 169، ط: مؤسسة الرسالة)
فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:
”شرعاً ہندہ کے ذمہ شوہر کی ماں کی خدمت واجب نہیں، لیکن اخلاقی طور پر اس کا خیال کرنا چاہیے کہ وہ اس کے شوہر کی ماں ہے، تو اپنی ماں کی طرح اس کو بھی راحت پہنچانے کا خیال رکھے اور شوہر کی اطاعت کرے، آخر جب ہندہ کو ضرورت پیش آتی ہے، تو شوہر کی ماں اس کی خدمت کرتی ہے، اس طرح آپس کے تعلقات خوشگوار رہتے ہیں اور مکان آباد رہتا ہے، البتہ شوہر کو بھی چاہیے کہ اپنی بیوی سے نرمی اور شفقت کا معاملہ کرے، اس کو سمجھائے کہ میں تمہاری ماں کا احترام کرتا ہوں اور انکو اپنی ماں کی طرح سمجھتا ہوں، تم بھی میری ماں کو اپنی ماں کی طرح سمجھو۔ نیز بیوی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔فقط واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔“
(باب احکام الزوجین، ج:18 ،ص :616 ، ط:ادارۃ الفاروق)
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ’’بہشتی زیور‘‘ میں خواتین کو خطاب کرکے تحریر فرماتے ہیں:
’’جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی۔‘‘
(بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، [باب: 31] (ص:47، 48) ط: تاج کمپنی کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606102647
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن