میرے اور میرے بھائی کے درمیان گھر کے معاملے میں لڑائی ہوئی، میں نے غصہ کی حالت میں کہا کہ اگر میں نے یہ گھر نہیں بیچا تو میری بیوی مجھ پرطلاق ہے یہ الفاظ تین مرتبہ کہے۔
واضح رہے کہ یہ گھر میرے والد صاحب کی ملکیت ہے، میرا نہیں، اور والد صاحب حیات ہیں، البتہ چوں کہ اس گھر کی جگہ کی خریداری اور تعمیرات وغیرہ میں میرا اہم کردار رہا، اس بناء پر میں نے سمجھا تھا کہ میں اگر فروخت کروں تو والد منع نہیں کریں گے۔
اس کے بعد میں نے اس گھر کا سودا کیا، یعنی اس گھر کے بدلے دوسرے گھر کا بیعانہ بھی دے دیا تھا، لیکن وہ سودا والد صاحب نے کینسل کروادیا، اور کہا یہ گھر میرا ہے آپ کیسے بیچ رہے ہو؟
اب کچھ سوالوں کے جواب مطلوب ہیں۔
(1) میری بیوی کو طلاق ہوگئی یانہیں؟
(2) گھر کا سودا جو میں نے کیا تھا، اس سے میری قسم پوری ہوگئی ہے یا نہیں؟
(3) اگر میری قسم پوری نہیں ہوئی ہے تو مجھے کیا کرنا ہوگا قسم پوری کرنے کے لیے؟ کیوں کہ گھر میرے والد صاحب کاہے، مجھے بیچنے نہیں دیتے، کہتے ہیں کہ آپ کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کیوں کہ گھر میرا ہے۔
(1-2-3) صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے ایک بار سودا کرلیا، یعنی یہ گھر آپ نے دوسرے گھر کے بدلے میں بیچ دیا، اور دوسرے گھر کا بیعانہ بھی ادا کردیا، تو اگر چہ بعد میں آپ کے والد نے یہ سودا کینسل کروادیا، لیکن اس سے آپ کی قسم پوری ہوگئی، کیوں کہ آپ نے بیچنے کی قسم کھائی تھی، اور وہ ایجاب وقبول سے پوری ہوئی، لہذا آپ کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی، نکاح بدستور برقرار ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وشرط صحته كون الشرط معدوما على خطر الوجود؛ فالمحقق كإن كان السماء فوقنا تنجيز، والمستحيل كإن دخل الجمل في سم الخياط لغو.
(قوله والمستحيل) محترز قوله على خطر الوجود ح."
(کتاب الطلاق، باب التعلیق، ج:3، ص:342، ط:سعید)
الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:
"(الشريطة الثانية) : أن يكون المحلوف عليه متصور الوجود حقيقة عند الحلف - أي ليس مستحيلا عقلا - وهذه شريطة لانعقاد اليمين بالله عند أبي حنيفة ومحمد وزفر.
ووجه اشتراطها: أن اليمين إنما تنعقد لتحقيق البر، فإن من أخبر بخبر أو وعد بوعد يؤكده باليمين لتحقيق الصدق، فكان المقصود هو البر، ثم تجب الكفارة ونحوها خلفا عنه، فإذا لم يتصور الأصل - وهو البر - لم يوجد الخلف - وهو الكفارة - فلا تنعقد اليمين."
(الشرائط التي ترجع إلى المحلوف عليه، ج:7، ص:269، ط: دار الفکر)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"يشترط لصحة التعليق ما يأتي:
1 -أن يكون الشرط المعلق عليه الطلاق معدوما على خطر الوجود، أي يحتمل أن يكون وألا يكون. فلو كان موجودا كان طلاقها منجزا، مثل إن خرجت أمس فأنت طالق، وقد خرجت فعلا فتطلق في الحال. وإن كان المعلق عليه أمرا مستحيلا عادة كالطيران وصعود السماء، مثل إن صعدت السماء فأنت طالق، ومنه التعليق بمشيئة الله تعالى، كأن يقول: أنت طالق إن شاء الله تعالى، فلا يقع عند الحنفية؛ لأن التعليق لا يصح، واليمين لغو، ووافقهم بقية المذاهب في التعليق بمستحيل عادة."
(القسم السادس: الأحوال الشخصية، تقسيم الطلاق إلى منجز ومعلق ومضاف للمستقبل، ج:9، ص:6969، ط:دار الفکر)
فتح القدير میں ہے:
"قال (البيع ينعقد بالإيجاب والقبول إذا كانا بلفظي الماضي) مثل أن يقول أحدهما بعت والآخر اشتريت
(قوله البيع ينعقد بالإيجاب والقبول) يعني إذا سمع كل كلام الآخر."
(کتاب البیوع، ج:6، ص:248، ط؛شركة مكتبة ومطبعة مصفى)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا."
(کتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، 420/1، ط:دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144606101696
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن