ہم ایک کاروبار سے منسلک ہیں اور چونکہ کاروبار میں مختلف مواقع پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے،لہذا سود سے بچنے کے لئے ہم کسی انوسٹر سے خریدوفروخت کرکے سرمایہ حاصل کرتے ہیں تاکہ انوسٹر اور ہمارامقصد پورا ہوجائے،ہم خرید وفروخت مندرجہ ذیل طریقے سے کرتے ہیں شرعی راہ نمائی فرمائیں کہ یہ طریقہ کا ر درست ہے یا نہیں ؟
طریقہ کا ر یہ ہے: مثلاً زید کو پانچ لاکھ کی ضرورت ہے تو زید انوسٹر سے کوئی چیز جیسا کہ عطر وغیرہ یا کوئی کم قیمت کی چیز پانچ لاکھ دس ہزار میں خریدےگا،تین ماہ کے ادھار پر ،پھر اسی نشست میں خریدی ہوئی چیز پر قبضہ کرکے بکر کو پانچ لاکھ میں فروخت کردے گاایک دن کے ادھار پر ،پھر بکر قبضہ کرکے اس نشست میں پانچ لاکھ روپے میں انوسٹر کو فروخت کردےگا،انوسٹر سامان پر قبضہ کرکے پانچ لاکھ کی رقم یا رقم کی چیک بکر کو ادا کرے گا،پھر بکر زید سے خریدی ہوئی سامان کی رقم کی ادائیگی زید کو کردے گا،اس طرح زید کو پانچ لاکھ روپے مل جائیگی اور انوسٹر کو اپنی رقم کو خرید وفروخت کے اس حیلے کے نتیجے میں منافع ہاتھ آجائیگا۔
اس طریقہ کار کے حوالے سے ہمارےراہ نمائی فرمائیں کہ کیا ہم سود سے بچ کر اس طریقہ کا ر پر عمل کرسکتے ہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں آپ حضرات جو معاملہ کررہے ہیں کہ مثلاً: زید کو نقد رقم کی ضرورت ہو تو وہ سیلر سے کوئی چیز تین مہینے کے ادھار پر اصل قیمت سے زیادہ(ایک لاکھ کی سامان کو ایک لاکھ بیس ہزار) پر خریدکر بکر کو اصل قیمت(ایک لاکھ) پر ایک دن کے ادھار کے ساتھ بیچتاہے پھر بکر یہی چیز اسی قیمت (ایک لاکھ) کے ساتھ سیلر پر نقد رقم سے بیچتاہے ،بکر نقد رقم وصول کرکے زید کو ادھار اداکرتاہے ،اور زید مقررہ مدت(تین مہینے ) کے اندر سیلر کو اصل رقم (ایک لاکھ)کے ساتھ نفع(بیس ہزار) بھی اداکرے گا، اس کو فقہ کی اصطلاح میں "بیع عینہ"کہاجاتاہے ،یہ مکروہ اور ناجائز ہے ،اسی بیع کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”جب تک تم بیع عینہ کرتے رہوگے اور جانوروں کی دیکھ بھال میں لگے رہوگے اور زراعت میں گم ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ دوگے تو اللہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کردے گا، یہاں تک کہ تم دوبارہ دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔“
سنن أبی داؤد میں ہے:
"عن ابن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا تبايعتم بالعينة، وأخذتم أذناب البقر ورضيتم بالزرع، وتركتم الجهاد سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم."
(کتاب الإجارة، باب فی النھی عن العینة، 3/ 291/ 3462، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي- الهند)
البنایة شرح الھدایه میں ہے:
"ومن صورها ما ذكره " قاضي خان " وهو أن يجعل المقرض والمستقرض بينهما ثالثا فيبيع صاحب الثوب باثني عشر من المستقرض، ثم إن المستقرض يبيعه من الثالث بعشرة ويسلم ثم يبيع الثالث من المقرض بعشرة ويأخذ منه عشرة ويدفعها إلى المستقرض فتندفع حاجته، وإنما خللا ثالثا تحرزا عن شراء ما باع بأقل مما باع قبل نقد الثمن."
(کتاب الکفالة، مات رجل وعلیه دیون، 8/ 461، ط: دار الکتب العلمیة)
فتح القدیرمیں ہے:
"قالوا: وهذا البيع مكروه لقوله صلى الله عليه وسلم «إذا تبايعتم بالعينة وتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم» والمراد باتباع أذناب البقر الحرث للزراعة لأنهم حينئذ يتركون الجهاد وتألف النفس الجبن.
وقال أبو يوسف: لا يكره هذا البيع لأنه فعله كثير من الصحابة وحمدوا على ذلك ولم يعدوه من الربا، حتى لو باع كاغدة بألف يجوز ولا يكره وقال محمد رحمه الله: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا، وقد ذمهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم» أي اشتغلتم بالحرث عن الجهاد وفي رواية «سلط عليكم شراركم فيدعو خياركم فلا يستجاب لكم» وقيل: إياك والعينة فإنها لعينة."
(کتاب الکفالة، 7/ 213، ط: دار الفکر)
مجمع الأنھر فی منتقی الأبحر میں ہے:
"وفي العناية: ومن الناس من صور للعينة صورة أخرى وهو أن يجعل المقرض والمستقرض بينهما ثالثا في الصورة التي ذكرها صاحب الهداية فيبيع صاحب الثوب الثوب باثنتي عشرة من المستقرض، ثم إن المستقرض يبيعه من الثالث بعشرة، ويسلم الثوب إليه، ثم يبيع الثالث الثوب من المقرض بعشرة ويأخذ منه عشرة ويدفعه إلى المستقرض فيندفع حاجته.وإنما توسطا بثالث احترازا عن شراء ما باع بأقل مما باع قبل نقد الثمن.
وهذه الحيل هي العينة التي ذكرها محمد قال مشايخ بلخي: بيع العينة في زماننا خير من البيوع التي في أسواقنا، انتهى، لكن التحرز أولى."
(کتاب الکفالة، فصل دفع الأصیل المال إلی کفیله، 2/ 140، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101364
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن