بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہترین صدقہ جاریہ کابتادیں؟


سوال

میری پیاری والدہ کا انتقال پچھلے ماہ ہوا وہ کچھ رقم چھوڑ کر گئیں تھیں اور کہہ گئیں تھیں کہ ان کا کفن دفن اس رقم سے کیا جائے مگر کفن دفن ہم نے کر لیا ہوا تھا، اب اس رقم سے کیا کیا جائے کہ والدہ کو قیامت تک ثواب ملتا رہے۔اس کے علاوہ بہترین صدقہ جاریہ کا بھی بتا دیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مرحومہ کے انتقال کے وقت مرحومہ کی ملکیت میں جتنی بھی اشیاء، نقدی وغیرہ تھیں،  وہ سب  مرحومہ کا ترکہ (میراث) شمار ہو گا، اور مرحومہ کے ورثاء (بیٹے، بیٹیوں) میں  ان کو شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائےگا۔ مرحومہ کے انتقال کے بعد مرحومہ کی ملکیتی تمام اشیاء سے مرحومہ کا حق ختم ہو چکا ہے، اب ان پر ورثاء کا حق ہے، اگر مرحومہ کے تمام ورثاء (اولاد، بیٹے، بیٹیاں) سب کے سب عاقل وبالغ ہیں اور وہ اپنی خوشی سے اس بات پہ راضی ہیں کہ ہمیں اپنا  حصہ نہیں چاہیے، اور سب مل کر اپنی والدہ مرحومہ  کے لیے صدقہ جاریہ کرنا چاہتے ہیں، تو کر سکتے ہیں،تاہم بہتر یہ ہے کہ ترکہ تقسیم کر کے تمام ورثاء کو ان کا حصہ دے دیا جائے، اس کے بعد جو وارث (بیٹا بیٹی) اپنا حصہ مرحوم والدین  کے لئے ایصال ثواب  کرنا چاہے تو کر دے، اور جو نہیں کرنا چاہتا وہ اپنے استعمال میں لے آئے۔

صدقہ جاریہ کی اقسام  بہت زیادہ ہیں: مثلاً: مسجد کی تعمیر، درخت لگانا، پانی کا نل لگوانا، قرآن کریم طبع کراکےتقسیم کرنا، علم نافع کی کتب، کیسٹس وغیرہ تیار کروا کے تقسیم کرنا،ان میں سے جو کرناہےکرلیں سب سے بہتر جہاں مسجد کی ضرورت ہو مسجد بنوادیں،یہ ثواب دائمی نہ ختم ہونے والا ہے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن مما يلحق المؤمن من عمله وحسناته بعد موته: علما علمه ونشره، وولدا صالحا تركه، أو مصحفا ورثه، أو مسحدا بناه، أو بيتا لابن السبيل بناه، أو نهرا أجراه، أو صدقة أخرجها من ماله في صحته وحياته، تلحقه من بعد موته."

(باب ثواب معلم الناس الخير،ص:100،رقم:242،ط:دار الصديق للنشر)

ترجمہ:سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مومن کو موت کے بعد جن اعمال کا ثواب پہنچتا رہتا ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں: جو علم سکھایا اور پھیلایا، نیک اولاد جسے دنیا میں چھوڑ آیا، قرآن کریم کا نسخہ جو اس نے ترکے میں چھوڑا، یا مسجد بنائی، یا مسافر خانہ تعمیر کروایا، یا نہر جاری کروائی، یا اپنی صحت اور زندگی میں اپنے مال سے نکالا ہوا صدقہ یہ سب اعمال مومن کی موت کے بعد مومن تک پہنچتے رہتے ہیں ۔"

مجلۃ الاحكام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة 1075) كل واحد من الشركاء في شركة الملك أجنبي في حصة الآخر ولا يعتبر أحد وكيلا عن الآخر فلذلك لا يجوز تصرف أحدهما في حصة الآخر بدون إذنه".

(الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة ،ص206،:ْنور محمد، كارخانه تجارتِ كتب)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144506101866

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں