ایک عورت فوت ہو گئی، اس نے کچھ ترکہ چھوڑا، اس کے خاوند پہلے فوت ہو چکے ہیں، اس کی ایک لڑکی تھی جو پہلے فوت ہو چکی ہے، ان کی اور کوئی اولاد نہیں تھی، اور ان کاایک بھائی اور چھ بہنیں تھیں جو پہلے فوت ہو گئے ہیں ، والدین بھی فوت ہو گئے ہیں، اب عورت کے صرف بھتیجے بھتیجیاں اور بھانجے بھانجیاں زندہ ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ ان کی وراثت شرعی طور پر کن میں تقسیم ہوگی؟
بصورتِ مسئولہ اگر واقعتًا مرحومہ کےدیگر ورثاء (والدین، شوہر، اولاد، بہن، بھائی وغیرہ) میں سے کوئی حیات نہیں ہے، صرف بھتیجے، بھتیجیاں، بھانجے، بھانجیاں حیات ہیں، تو مرحومہ کے ترکہ میں سے حقوقِ متقدمہ ادا کرنے کے بعد کل ترکہ صرف بھتیجوں کو ملےگا، باقی بھتیجیاں، بھانجے، بھانجیاں شرعی طور پر مرحومہ کے ترکہ میں حق دار نہیں ہوں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"أن ابن الأخ لايعصب أخته، كالعم لايعصب أخته، و ابن العم لايعصب أخته، و ابن المعتق لايعصب أخته، بل المال للذكر دون الأنثى؛ لأنها من ذوي الأرحام، قال في الرحبية: و ليس ابن الأخ بالمعصب ... من مثله أو فوقه في النسب."
(کتاب الفرائض، فصل في العصبات، ج:6، ص:783، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209202220
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن