بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھرائی والا بکرا خریدنے کا حکم


سوال

اس کے بارے میں فتوی موصول ہوگیا کہ بکروں کو یا کسی اور جانور کو چارہ وغیرہ بھرائی کے طریقے سے کھلانا یعنی زورزبردستی کھلانا جس سے بکرا جلدی موٹا ہوجاتاہے، یہ  جائزنہیں ہے، کیونکہ اس سے جانور کوتکلیف ہوتی ہے، اب پوچھنایہ ہے کہ منڈی سے وہ بکرا جسے  بھرائی کے طریقے سے چارہ وغیرہ کھلاکر موٹا کردیا ہو، اور خریدار کو معلوم بھی ہو کہ اس بکرے کو بھرائی کے ذریعے چارہ وغیرہ کھلایا گیا ہے تو کیا ایسے بکرے کا خریدنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بکرے یاکسی جانور وغیرہ کو بھرائی کے طریقے سے زور زبردستی کھلانا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس سے جانور کو تکلیف ہوتی ہے، ایسا کرنے والا گنہگار ہے، لیکن ایسے جانور کی خرید وفروخت اور قربانی جائز  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"القيود خمسة، وجعلها في البحر ستة فقال: الثاني أن لا يعلم به المشتري عند البيع. الثالث أن لا يعلم به عند القبض وهي في الهداية اهـ لكن قال في الشرنبلالية إنه يقتضي أن مجرد الرؤية رضا ويخالفه قول الزيلعي: ولم يوجد من المشتري ما يدل على الرضا به بعد العلم بالعيب. اهـ وكذا قول المجمع ولم يرض به بعد رؤيته. اهـ

قلت: صرح في الذخيرة بأن قبض المبيع مع العلم بالعيب رضا بالعيب".

(کتاب البیوع، باب خیارالعیب، ج:5، ص:5، ط:سعید)

مسلم شریف میں ہے:

"عن يزيد بن أبي حبيب، أن ناعما أبا عبد الله، مولى أم سلمة حدثه أنه، سمع ابن عباس، يقول: «ورأى رسول الله صلى الله عليه وسلم حمارا موسوم الوجه فأنكر ذلك»، قال: فوالله لا أسمه إلا في أقصى شيء من الوجه، فأمر بحمار له فكوي في جاعرتيه، فهو أول من كوى الجاعرتين".

(الصحیح لمسلم، كتاب اللباس، باب النهي عن ضرب الحيوان في وجهه، ج:2،ص:210، ط:رحمانيه)

"ترجمہ:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گدھا دیکھا کہ جس کے چہرے کو داغا گیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برا کہا اور ارشاد فرمایا:اللہ کی قسم میں تو نہیں داغ دیتا سوائے اس حصے کو جو چہرے سے بہت دور ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گدھے کے بارے میں حکم فرمایا تو اس کے گدھے کے  سرین کے اوپر کے حصے پر داغ دیا گیا اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی سرین کے اوپر کے حصے میں داغا"۔

وفیہ ایضاً:

"عن جابر، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن الضرب في الوجه، وعن الوسم في الوجه»."

(الصحيح لمسلم، كتاب اللباس، باب النهي عن ضرب الحيوان في وجهه، ج:2،ص:210، ط:رحمانيه)

"حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور چہرے پر داغ لگانے سے منع فرمایا ہے"۔(تحفۃ المنعم)۔

وفیہ ایضاً:

"عن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌عذبت ‌امرأة ‌في ‌هرة ‌سجنتها ‌حتى ‌ماتت فدخلت فيها النار، لا هي أطعمتها وسقتها، إذ حبستها، ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض»".

(کتاب الفضائل، باب تحریم تعذیب الهرۃ ونحوها من الحیوان، ج:2، ص:333، ط:رحمانیه)

ترجمہ:حضرت عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیاگیا جسے اس نے باندھ رکھا تھا، یہاں کہ وہ مرگئی اور وہ اسی وجہ سے جہنم میں داخل ہوگئی، اور یہ اسے نہ کھلاتی تھی، نہ پلاتی تھی، اسے باندھے رکھا اور اسے نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھالیتی۔(تحفۃ المنعم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں