بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ماہ سے زیادہ بے ہوشی کی حالت فوت ہونے والے کی نمازوں کا حکم


سوال

میرا چچا 16/10/2023 کو بے ہوش ہوا تھا، ٹھیک 2/1/2024 میں فوت ہوا تو ان کی نمازوں کا  فدیہ کتنا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ  اگرکوئی شخص ایسی بے ہوشی میں مبتلا   ہو جائے کہ اسے نماز کے بارے میں اطلاع دینے کے باوجود  وہ مطلع نہ ہو سکے،  اور  مسلسل چھ نمازیں  مکمل بے ہوشی میں گزر جائیں،تو ایسی صورت میں وہ نمازیں  مذکورہ شخص  کے ذمہ سے معاف ہو جاتی ہیں، ہوش میں آنے کے بعد ان نمازوں کی قضا  واجب نہیں ہوتی اور نہ ہی فدیہ لازم ہوتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں  سائل کے چچا کی  مذکورہ بے ہوشی کی حالت میں  جو نمازیں قضا ہوئی ہیں وہ معاف ہیں ،ان کا کوئی فدیہ نہیں ہے۔ 

البتہ  اس بے ہوشی کی حالت سے پہلے اگر صحت کی حالت میں  نمازیں قضا ہوئی ہوں اور مرحوم نے نمازوں کے فدیہ کی وصیت کی ہو اور مرحوم پر قرض نہ ہو تو ان کے متروکہ مال کے ایک تہائی سے وصیت نافذکی جائے گی، ان پر کوئی قرض ہو تو قرض کی ادائیگی کے بعد بقیہ ترکے کے ایک تہائی سے وصیت نافذ کی جائے گی، اور اگر وصیت نہ کی ہو تو  ورثاء اپنی خوش دلی سےاجتماعی یا انفرادی طور پر  ان کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں،  میت پر احسان ہو گا ۔
نیز فدیہ میں ہر نماز کے عوض ایک صدقۂ فطرکی مقدار دینا لازم ہے، یعنی ایک دن کی پانچ فرض نمازیں اور ایک وترکل ملا کر چھ نمازیں شمار کر کے جتنے دنوں  کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان کا حساب لگا لیا جائے، اور غریب مستحق مسلمان کو مالک بناکردیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومن أغمي عليه خمس صلوات قضى، و لو أكثر لايقضي، و الجنون كالإغماء و هو الصحيح، ثم الكثرة تعتبر من حيث الأوقات عند محمد -رحمه الله تعالى- وهو الأصح، هذا إذا دام الإغماء و لم يفق في المدة أما إذا كان يفيق ينظر فإن كان لإفاقته وقت معلوم مثل أن يخف عنه المرض عند الصبح مثلًا فيفيق قليلًا ثم يعاوده فيغمى عليه تعتبر هذه الإفاقة فيبطل ما قبلها من حكم الإغماء إذا كان أقل من يوم وليلة، وإن لم يكن لإفاقته وقت معلوم لكنه يفيق بغتةً فيتكلم بكلام الأصحاء، ثمّ يغمى عليه فلا عبرة بهذه الإفاقة، كذا في التبيين. ولو أغمي عليه بفزع من سبع أو آدمي أكثر من يوم وليلة يسقط عنه القضاء بالإجماع."

(کتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر في صلاة المريض، ج: ۱، صفحه: ۱۳۷، ط:  دار الفکر - بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومن جن أو أغمي عليه) ولو بفزع من سبع أو آدمي (يومًا وليلةً قضى الخمس وإن زاد وقت صلاة) سادسة (لا) للحرج. ولو أفاق في المدة، فإن لإفاقته وقت معلوم قضى وإلا لا (زال عقله ببنج أو خمر) أو دواء (لزمه القضاء وإن طالت) لأنه بصنع العباد كالنوم."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج:۲، صفحہ: ۱۰۲، ط: ایچ، ایم، سعید)

 البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله: و من جن أو أغمي عليه خمس صلوات قضى ولو أكثر لا) وهذا استحسان والقياس أن لا قضاء عليه إذا استوعب الإغماء وقت صلاة كاملة لتحقق العجز وجه الاستحسان أن المدة إذا طالت كثرت الفوائت فيحرج في الأداء وإذا قصرت قلت فلا حرج والكثير أن يزيد على يوم وليلة لأنه يدخل في حد التكرار والجنون كالإغماء على الصحيح وفي تحرير الأصول الجنون ينافي شرط العبادات وهي النية فلاتجب مع الممتد منه مطلقًا للحرج."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج:۲، صفحه: ۱۲۷،  ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى الكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).(قوله: وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لايلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة".

(کتاب الصلاۃ، باب قضاءالفوائت، ج: ۲، صفحہ: ۷۲ و۷۳، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102573

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں