بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھولے سے عصر کی نماز جلدی پڑھ لی تو کیا حکم ہے؟


سوال

بازار میں عصر کی جماعت سے پہلے اہلِ حدیث کی اذان سن کر بھولے سے کچھ دیر بعد حنفیہ مسجد میں انفرادی نماز ادا کر لی اور بعد میں معلوم ہوا کہ جماعت کچھ دیر بعد ہے تو کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جب  عصر کی نماز ادا کی، اگر اُس وقت فقہ حنفی کے مطابق عصر کی نماز کا وقت داخل ہو گیا تھا تو اُس کی نماز درست ہو گئی، اعادہ کی ضرورت نہیں،  نیز نفل کی نیت سے جماعت میں شریک بھی نہیں ہو سکتا؛ اس لیے کہ عصر کی نماز کے بعد نفل پڑھنا مکروہ ہے۔

اس صورت میں اگر بلاعذر جماعت چھوڑی ہے تو جماعت چھوڑنے کا گناہ ملے گا، البتہ اگر کوئی شرعی عذر (بیماری، سفر یا شدید بارش وغیرہ) ہو پھر گناہ نہیں ملے گا۔

اور اگر نماز کی ادائیگی کے وقت عصر کی نماز کا وقت داخل ہی نہیں ہوا تھا تو اُس کی نماز درست نہیں ہوئی، اس پر نماز کا اعادہ لازم ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 383):

"الأصل في مشروعية الأذان الإعلام بدخول الوقت".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 552):

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة وعيد فشرط".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 52):

"(وإن صلى ثلاثًا منها) أي الرباعية (أتم) منفردًا (ثم اقتدى) بالإمام (متنفلًا، ويدرك) بذلك (فضيلة الجماعة) حاوي (إلا في العصر) فلا يقتدي لكراهة النفل بعده".

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144202200856

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں