بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھول کر قسم کے خلاف کرنے سے کفارہ کا حکم


سوال

اگر لڑکی نےقسم کھائی کہ ایک ہفتے تک  ناول نہیں پڑھوں  گی،پھر موبائل میں ایک تصویر میں ناول کی کچھ سطریں بھولےسے پڑھ لیں تو کیا حکم ہے ؟ اور کیا "وعدہ "کے لفظ سے قسم منعقد ہو جائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب  لڑکی نے ایک ہفتے تک ناول نہ پڑھنے کی قسم کھائی تھی تو اسی وقت قسم منعقد ہوگئی تھی ،پھر جب بھول کر موبائل میں ناول کی کچھ سطریں بھولے سے پڑھ ڈالیں تو قسم کے خلاف کرنے سے قسم ٹوٹ گئی ،کیوں کہ بھولے سے  قسم کے خلاف کرنے سے بھی قسم ٹوٹ جاتی ہے،ایسی صورت میں  مذکورہ لڑکی پرقسم کا کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا۔اورقسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ یا تو دس غریب محتاجوں کوایک دن صبح، شام پیٹ بھر کر   کھانا کھلایا جائےیاایک جوڑا کپڑوں کا دیا جائے۔  ان دونوں   میں اختیار ہے، جس سےچاہے کفارہ ادا کرے اور اگر ان  میں سے کسی ایک پر بھی قدرت نہ ہو تو تین دن تک لگاتار روزے رکھے۔

باقی قسم کے منعقد ہونے کے لیے  قسم کے مخصوص الفاظ کی ادائیگی ضروری ہے،اگر صرف وعدہ کیا ہو اور قسم نہ کھائی ہو تو شرعاً اس سے قسم منعقد نہیں ہوتی،اور اگر وعدہ کرنے کے ساتھ ساتھ قسم بھی کھائی ہو تو پھر قسم منعقد ہوجاتی ہے۔

قرآن مجید میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰـكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَۚ-فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍؕ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍؕ-ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْؕ-وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(سورة المائدة:89)."

ترجمہ:"الله تعالیٰ تم سے مواخذہ نہیں فرماتے تمھاری قسموں میں لغو قسم پر لیکن مواخذہ اس پر فرماتے ہیں کہ تم قسموں کو مستحکم کردو ۔ سو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا اوسط درجہ کا جو اپنے گھر والوں کو کھانے کو دیا کرتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں یہ کفارہ ہے تمھاری قسموں کا جب کہ تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کا خیال رکھا کرو اسی طرح الله تعالیٰ تمھارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتے ہیں تاکہ تم شکر کرو۔"(بیان القرآن)

تبیین الحقائق میں ہے:

"‌تجب ‌الكفارة ‌ولو كان حلف مكرها أو ناسيا أو حنث مكرها أو ناسيا."

(كتاب الأيمان ،ج:3، ص:109،ط:دار الكتاب الإسلامي)

البنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے:

"قال: و‌‌القاصد في اليمين والمكره والناسي سواء، حتى تجب الكفارة.

(حتى تجب الكفارة) . ش: بيان نتيجة كون القاصد في اليمين والمكره والناسي سواء يعني لا فرق في وجوب الكفارة على هؤلاء جميعاً."

(كتاب الأيمان، ج:6، ص:116، ط:دار الكتب العلمية)

مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"(و) كذا (‌أقسم ‌وأحلف) بكسر اللام (وأشهد) بفتح الهمزة والهاء فإن هذه الألفاظ مستعملة في الحلف فجعل حلفا في الحال."

(كتاب الأيمان، فصل حروف القسم، ج:1، ص:545، ط: دار إحياء التراث العربي)

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله: واليمين بالله تعالى والرحمن والرحيم وجلاله وكبريائه وأقسم وأحلف وأشهد، ‌وإن ‌لم ‌يقل ‌بالله.... وأما كونه حالفا بقوله أقسم، أو أحلف، أو أشهد، ‌وإن ‌لم ‌يقل ‌بالله فلأن هذه الألفاظ مستعملة في الحلف وهذه الصيغة للحال حقيقة وتستعمل للاستقبال بقرينة فجعل حالفا للحال."

(كتاب الأيمان، ج:4، ص:305، 307، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وركنها ‌اللفظ ‌المستعمل ‌فيها."

(كتاب الأيمان ، ج:3، ص:704، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں