بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بھوک وافلاس کی وجہ سے مجبوراً حرام مال استعمال میں لانے کا حکم


سوال

ایک عورت لاوارث، بیوہ اور یتیم چار بچوں کی ماں اور کفالت کرنے والا اس کا بھائی ہے، جب کہ بھائی شراب نوشی کرتا ہے،  اس کا کاروبار بھی شراب کا ہے، تو کیا بھائی کے پیسے اس کے لیے حلال ہوں گے ؟اور اگر وہ بھائی کے پیسے نہ لے، تو وہ اور اس کے بچے بھوک و افلاس سے مرجائیں گے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون اگر واقعۃً  ضرورت مند ہوں، اور بھائی کے پیسوں کے علاوہ کوئی انتظام نہ ہوں، اور بھائی سے پیسے نہ لینے کی صورت میں بھوک وافلاس سے جان جانے کا خطرہ ہو، تو ایسی  مجبوری کی صورت میں مذکورہ بھائی کے پیسے بقدر ضرورت استعمال میں لانے کی گنجائش ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"حتى لو تعين الحرام مدفعا للهلاك يحل كالميتة والخمر عند الضرورة، وتمامه في البحر... وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر... وقيل يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى. اهـ."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب المياه، فروع التداوي بالمحرم، ج: 1، ص: 210، ط: سعید)

'الاختيار لتعليل المختار' میں ہے:

"والملك الخبيث سبيله التصدق به، و لو صرفه في حاجة نفسه جاز، ثم إن كان غنيًّا تصدق بمثله، و إن كان فقيرًا لايتصدق."

(کتاب الغصب، ج: 3، ص: 76، ط: قدیمي)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں