ایک عورت لاوارث، بیوہ اور یتیم چار بچوں کی ماں اور کفالت کرنے والا اس کا بھائی ہے، جب کہ بھائی شراب نوشی کرتا ہے، اس کا کاروبار بھی شراب کا ہے، تو کیا بھائی کے پیسے اس کے لیے حلال ہوں گے ؟اور اگر وہ بھائی کے پیسے نہ لے، تو وہ اور اس کے بچے بھوک و افلاس سے مرجائیں گے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون اگر واقعۃً ضرورت مند ہوں، اور بھائی کے پیسوں کے علاوہ کوئی انتظام نہ ہوں، اور بھائی سے پیسے نہ لینے کی صورت میں بھوک وافلاس سے جان جانے کا خطرہ ہو، تو ایسی مجبوری کی صورت میں مذکورہ بھائی کے پیسے بقدر ضرورت استعمال میں لانے کی گنجائش ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"حتى لو تعين الحرام مدفعا للهلاك يحل كالميتة والخمر عند الضرورة، وتمامه في البحر... وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر... وقيل يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى. اهـ."
(كتاب الطهارة، باب المياه، فروع التداوي بالمحرم، ج: 1، ص: 210، ط: سعید)
'الاختيار لتعليل المختار' میں ہے:
"والملك الخبيث سبيله التصدق به، و لو صرفه في حاجة نفسه جاز، ثم إن كان غنيًّا تصدق بمثله، و إن كان فقيرًا لايتصدق."
(کتاب الغصب، ج: 3، ص: 76، ط: قدیمي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144503100108
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن