بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھول کر ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھانے کا حکم


سوال

 اگر امام صاحب بھول کر ناپاک کپڑے میں نماز پڑھادیں ،بعد میں یاد آنے پر کیاکریں ؟

جواب

 واضح رہے کہ نماز کے درست ہونے لیے کپڑوں کا پاک ہونا ضروری ہے، ناپاک کپڑوں میں نماز  ادا کرنا جائز نہیں ہے اور اس سے نماز ادا نہیں ہوتی،  البتہ اگر کپڑوں پر معمولی نجاست ہو اور اس کے ساتھ نماز ادا کرلی تو نماز ادا ہوجاتی ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ  نجاست کی دو قسمیں  ہیں :

 (1) نجاستِ غلیظہ:  مثلا آدمی کا پاخانہ، پیشاب، شراب، خون ، جانوروں کا گوبر، اور حرام جانوروں کا پیشاب وغیرہ،  یہ اگربہنے والی ہوتو  ایک درہم یعنی چاندی کے روپے کے پھیلاؤ کے بقدر معاف ہے، اور اگر گاڑھی ہو تو  ساڑھے چار ماشے وزن تک معاف ہے، اس سے زیادہ ہو تو نماز  نہیں ہوگی۔

 (2) نجاستِ خفیفہ: مثلاً  حلال جانوروں کا پیشاب ، حرام پرندوں کی بیٹ وغیرہ،  یہ کپڑے کے چوتھائی حصے تک معاف ہے، چوتھائی کپڑے سے مراد کپڑے کا وہ حصہ جس پر نجاست لگی ہو، مثلاً آستین الگ شمار ہوگی، دامن الگ شمار  ہوگا۔

         اور معاف ہونے  کا مطلب یہ ہے کہ اسی حالت میں نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی، اور دوبارہ لوٹانا ضروری نہیں ہے، لیکن اس نجاست کا دور کرنا اور کپڑے کا پاک کرنا بہرحال ضروری ہے، اور اگر نجاست کا پہلے سے علم ہو تو کپڑے کو پاک کرکے نماز ادا کرنی چاہیے، اور ایسی صورت میں نماز کے بعد کپڑے پاک کرکے نماز دہرا لینا بہتر  ہے۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں  اگر کپڑوں پر نجاست معاف مقدار سے کم لگی ہو تو اس کے ساتھ جو نماز پڑھی گئی ہے وہ ادا ہوگئی دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں ،اور اگر معاف مقدار سے زائد نجاست لگی تھی تو  تو پھر امام اور مقتدی کسی کی نماز صحیح نہیں ہوئی ہے، جو نماز امام  نے اس کپڑے کے ساتھ پڑھائی ہے اسے دوبارہ پڑھنا سب پر شرعاً ضروری ہے۔

الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی میں ہے :

" تطهير النجاسة واجب من بدن المصلي وثوبه والمكان الذي يصلي عليه " لقوله تعالى: {وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ} وقال عليه الصلاة والسلام " حتيه ثم اقرصيه ثم اغسليه بالماء، ولا يضرك أثره ".

(کتاب الطہارات،باب الانجاس ،ج؛1،ص:36،داراحیاء التراث العربی)

وفيه ايضا:

"‌وقدر ‌الدرهم وما دونه من النجس المغلظ كالدم والبول والخمر وخرء الدجاجة وبول الحمار جازت الصلاة معه وإن زاد لم تجز " وقال زفر والشافعي رحمهما الله: قليل النجاسة وكثيرها سواء لأن النص الموجب للتطهير لم يفصل ولنا أن القليل لا يمكن التحرز عنه فيجعل عفوا وقدرناه بقدر الدرهم أخذا عن موضع الاستنجاء ثم يروى اعتبار الدرهم من حيث المساحة وهو قدر عرض الكف في الصحيح ويروى من حيث الوزن وهو الدرهم الكبير المثقال وهو ما يبلغ وزنه مثقالا وقيل في التوفيق بينهما إن الأولى في الرقيق والثانية في الكثيف وإنما كانت نجاسة هذه الأشياء مغلظة لأنها ثبتت بدليل مقطوع به " وإن كانت مخففة كبول ما يؤكل لحمه جازت الصلاة معه حتى يبلغ ربع الثوب " يروى ذلك عن أبي حنيفة رحمه الله لأن التقدير فيه بالكثير الفاحش والربع ملحق بالكل في حق بعض الأحكام وعنه ربع أدنى ثوب تجوز فيه الصلاة كالمئزر وقيل ربع الموضع الذي اصابه كالذيل والدخريص وعن أبي يوسف رحمه الله شبر في شبر وإنما كان مخففا عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله لمكان الاختلاف في نجاسته أو لتعارض النصين على اختلاف الأصلين ".

(كتاب الطهارات،باب الانجاس،ج:1،ص:37،داراحياء التراث العربي)

مراقی الفلاح شرح نور الایضاح ميں هے :

"وعفي قدر الدرهم" وزنا في المتجسدة وهو عشرون قيراطا ومساحة في المائعة وهو قدر مقعر الكف داخل مفاصل الأصابع كما وفقه الهندواني وهو الصحيح فذلك عفو "من" النجاسة "المغلظة"  وما دون ربع الثوب أو البدن من الخفيفة".

(کتاب الطہارۃ،باب الانجاس ،ص:66،المکتبۃ العصریۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں