بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھول کر جنابت میں نماز کا حکم


سوال

صاف ستھرے کپڑے پہن کر وضو کیا اور ظہر کی نماز ادا کی، عصرکی نمازکے وقت خیال آیا کہ غسل واجب تھا، اب غسل کیا اورعصر کی نماز ادا کر لی .،غسل ظہر کی نماز پر واجب تھا مگر بھول  سے وضو کر کے ہی نماز ادا کر لی، اب کیا اس صورت میں نماز ہو گئی یا لوٹانی پڑے گی؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں ظہر کی نماز جنابت کی حالت میں ادا کی گئی،   وہ ناپاکی کی حالت میں پڑھنے کی  وجہ سے  ادا نہیں ہوئی، اس نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم ہے، البتہ چوں کہ  اس  نے جان بوجھ کر  ناپاکی کی حالت میں  نماز نہیں پڑھی ، بلکہ غلطی اور بھول سے پڑھی  ہے، اس لیے امید ہے کہ اس کا گناہ تو   نہیں ہوگا، تاہم احتیاط یہ ہے کہ وہ  اس پر اللہ کے دربار میں توبہ و استغفار کر کے اس کی تلافی کرلیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) شرائط أركان الصلاة: (فمنها) الطهارة بنوعيها من الحقيقية والحكمية، والطهارة الحقيقية هي طهارة الثوب والبدن ومكان الصلاة عن النجاسة الحقيقية، والطهارة الحكمية هي طهارة أعضاء الوضوء عن الحدث، وطهارة جميع الأعضاء الظاهرة عن الجنابة.

(أما) طهارة الثوب وطهارة البدن عن النجاسة الحقيقية فلقوله تعالى: {وثيابك فطهر} [المدثر: 4] ، وإذا وجب تطهير الثوب فتطهير البدن أولى.

(وأما) الطهارة عن الحدث والجنابة فلقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم} [المائدة: 6] إلى قوله: {ليطهركم} [الأنفال: 11].

و قول النبي صلى الله عليه وسلم : «لا صلاة إلا بطهور»، و قوله عليه الصلاة والسلام: «لا صلاة إلا بطهارة» وقوله صلى الله عليه وسلم: «مفتاح الصلاة الطهور». وقوله تعالى: {وإن كنتم جنباً فاطهروا} [المائدة: 6]، وقوله صلى الله عليه وسلم : «تحت كل شعرة جنابة ألا فبلوا الشعر وأنقوا البشرة» ، والإنقاء هو التطهير، فدلت النصوص على أن الطهارة الحقيقية عن الثوب والبدن، والحكمية شرط جواز الصلاة".

(کتاب الصلاۃ،فصل شرائط ارکان الصلاۃ،ج:1،ص:114،دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے :

"وحديث «رفع عن أمتي الخطأ» محمول على رفع الإثم.

 (قوله: «رفع عن أمتي الخطأ») قال في الفتح: ولم يوجد بهذا اللفظ في شيء من كتب الحديث، بل الموجود فيها " «إن الله وضع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه»، رواه ابن ماجه وابن حبان والحاكم، وقال: صحيح على شرطهما، ح.

(قوله: على رفع الإثم) وهو الحكم الأخروي، فلا يراد الدنيوي وهو الفساد؛ لئلايلزم تعميم المقتضى، ح عن البحر".

(کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا،ج:1،ص:615،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں