بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھوک کی وجہ سے نماز توڑنا اور اس کی قضا


سوال

چار رکعت کی نیت سے نماز پڑھنا شروع کیا پھر بھوک زیادہ ہوگئی  تو کیا نماز توڑنا جائز ہے یانہیں؟  اور پھر اس نماز کااعادہ لازم ہے یانہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر نماز کے وقت سخت بھوک لگی ہو اور کھانا بھی تیار ہو ، تو بہتر ہے کہ پہلے کھانے سے فارغ ہوجائے؛ تاکہ بعد میں اطمینان سے نماز ادا کرسکے، بشرطیکہ فرض نماز قضا نہ ہو، لیکن نماز شروع کردی ہو  تو بعد میں صرف معمولی بھوک کی وجہ سے نماز توڑنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر  شدت بھوک سے نڈھال ہوگیا ہو (جو کہ عام طور پر نہیں ہوتا)  اور اس وجہ سے نماز توڑدی تو  گناہ نہیں ہوگا۔

پھر اگر  وہ نماز فرض یا واجب وغیرہ تھی  تو اس کا  مکمل اعادہ لازم ہوگا، اور اگر نفل تھی تو اس کوتوڑنے کی وجہ سے دو رکعت نماز کا اعادہ کرنا لازم ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق(1/ 367):

وتسقط بعذر البرد الشديد ۔۔۔۔ وكذا إذا حضر العشاء وأقيمت صلاة العشاء ونفسه تتوق إليه وكذا إذا حضر الطعام في غير وقت العشاء ونفسه تتوق إليه اهـ.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 29):

(ولزم نفل شرع فيه) بتكبيرة الإحرام أو بقيام الثالثة شروعا صحيحا (قصدا) إلا إذا شرع متنفلا خلف مفترض ثم قطعه واقتدى ناويا ذلك الفرض بعد تذكره، أو تطوعا آخر، أو في صلاة ظان، أو أمي، أو امرأة، أو محدث يعني وأفسده في الحال؛ أما لو اختار المضي ثم أفسده لزمه القضاء (ولو عند غروب وطلوع واستواء) على الظاهر (فإن أفسده حرم) - {ولا تبطلوا أعمالكم} [محمد: 33]- (إلا بعذر،ووجب قضاؤه) ولو فساده بغير فعله۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں