بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن کے علاج پر کیے گئے خرچے کو میراث سے منہا کرنے کا حکم


سوال

میری چھوٹی بہن  ( غیر شادی شدہ ) عمر 50  سال کا انتقال ستمبر  2019 کو ہوا تھا،وہ  شدید بیماری کی حالت میں انتقال کرگئی تھی،  چار  ماہ کوما  میں رہی، اس کی بیماری پر دو بہن بھائیوں  نے  پیسہ  لگایا جو تقریبًا 25  لاکھ بنتا ہے، کچھ پیسوں کی تقسیم تو شرعی طور پر ہوگئی جو اس کے اکاؤنٹ میں تھے،  لیکن ایک گھر جو کہ اس کے نام تھا دوبہنوں کے قبضے میں ہے جس میں ایک بہن اپنا خرچہ مانگ رہی ہیں جو بیماری پر لگا، گیارہ  لاکھ، اور وہ لندن میں مقیم ہیں، اور کہتی ہیں کہ انہوں نے فتوی لیا ہے  کہ اس جائیداد کی تقسیم ایسے ہو کہ  جس کے جتنے پیسے لگے ہیں وہ اس کو ملیں اور جو بچیں وہ تقسیم ہوں،  کیا شرعی طور سے ایسا ہے؟جب کہ  علاج کرتے وقت کسی کی نیت یہ نہیں تھی،  ایک بھائی نے اس سے زیادہ دئیے لیکن وہ کچھ نہیں مانگ رہا ، سات بہنیں اور تین بھائی ہیں جس میں سے ایک چلی گئی ،آپ سے عرض یہ ہے کہ  کیا بہن کی جائیداد اس طرح تقسیم ہونے کا قرآن کے حساب سے کوئی حکم ہے ؟

جواب

از رُوئے شرع حکم یہی ہے کہ میّت کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ کو تقسیم کرنے سے قبل ان کی تدفین کے اخراجات، قرضہ کی رقم ، اور جائز وصیتوں کی مد میں تہائی مال منہا کیاجائے، اس کے بعد باقی ماندہ ترکہ ورثاء میں اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ بہن بھائیوں نے قرض  کی صراحت کے  ساتھ مرحومہ بہن کے علاج پر رقم واپسی کے معاہدے کے ساتھ خرچ کی تھی تو میراث تقسیم کرنے سے پہلے مذکورہ رقم کو منہا کیا جاسکتا ہے، تاہم اگر مذکوربہن  بھائیوں نے اپنی  بہن کے علاج  پر  مذکورہ رقم  واپسی کے معاہدہ  کے بغیر خرچ کی تھی تویہ  رقم بہن بھائیوں کی طرف سے اپنی بہن پر تبرع واحسان تھا (جیسے کہ سوال سے بھی یہی ظاہر ہورہا ہے) لہذا اس رقم کو میراث سے منہا نہیں کیا جاسکتا۔

جو فتوی بہن نے حاصل کیا ہے ،اس کی نقل بھیج کر جواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔

باقی ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی:

مرحومہ کی کل جائیداد منقولہ وغیرہ کو حقوقِ متقدمہ ادا کرنے کے بعد یعنی تدفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر کوئی قرضہ ہے تو اس کو منہا کرنے کے بعد، اور اگر کوئی جائز وصیت کی ہے تو تہائی مال سے منہا کرنے کے بعد باقی ماندہ ترکہ کو کل بارہ حصوں میں تقسیم کرکے دو دو حصے ہربھائی کو اور ایک ایک حصہ ہر بہن کو ملے گا، (ملحوظ رہے یہ تقسیم اس وقت ہے جب مرحومہ کے والدین بھی حیات نہیں ہے۔)

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"ثم بالدين و أنه لايخلو إما أن يكون الكل ديون الصحة أو ديون المرض، أو كان البعض دين الصحة والبعض دين المرض، فإن كان الكل ديون الصحة أو ديون المرض فالكل سواء لايقدم البعض على البعض، و إن كان البعض دين الصحة و البعض دين المرض يقدم دين الصحة إذا كان دين المرض ثبت بإقرار المريض، وأما ما ثبت بالبينة أو بالمعاينة فهو و دين الصحة سواء، كذا في المحيط." 

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:447، ط:مكتبه رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں