بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن کو زکاۃ دینا


سوال

میری ایک بیوہ بہن ہے، اس کے 3 بچے ہیں جو طالب علم ہیں،  اس کے شوہر نے اسے ایک مکان چھوڑ دیا جس میں وہ رہ رہی ہے،  وہ ایک گھریلو بیوی تھی،  اس کا بیٹا ابھی مضبوط کمانے والا نہیں ہے۔ میں اپنے شوہر کی رقم کی زکات سے اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ اگر میں یہ کر سکتا ہوں تو براہ کرم میری راہ نمائی کریں۔

جواب

زکاۃ  اس شخص کو دی جاسکتی ہے  جو  غریب اور ضروت مند ہو  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے  پاس ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے ۔

اگر بہن صاحب نصاب ہو، لیکن ماہانہ اخراجات کے مسائل ہوں تو اگر  بچے بالغ ہوں اور وہ صاحب نصاب نہ ہوں اور سید بھی نہ ہوں تو ان کو  زکاۃ دینا جائز ہے ، زکاۃ لے کر وہ اپنے گھر کے اخراجات میں استعمال کرسکتے ہیں۔

باقی بھائی بہن اگر مستحق زکاۃ ہوں تو  ان کو زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ یہ زیادہ ثواب کا باعث ہے ؛ اس لیے کہ اس میں صلہ رحمی بھی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202919

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں