بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن کو میراث میں سے ان کے حصے سے کم حصہ دینے کا حکم


سوال

میری بہن اور والدہ  نانی کے گھر میں اوپر والے حصے میں طے شدہ کرایہ کے مطابق رہتی تھیں، اور بہن نے طے شدہ  کرایہ ادا بھی کیا،یہ گھر میرے نانا کا تھا جو ان کے انتقال کے بعد میرے ماموں نے خریدلیا، اور سب کو ان کا حصہ دیا، میری والدہ کو نہیں دیا، پھر بعد میں میری  والدہ کو حصہ دینے لگے، تو ماموں نے کہا کہ آپ کی بہن نے ایریا کے حساب سے بہت کم کرایہ دیا تھا، لہذا اس کرایہ کو والدہ کے حصے سے کاٹ لیتے ہیں، جب کہ میری بہن نے طے شدہ کرایہ ادا کیا تھا، تو کیا والدہ کے حصہ سے وہ کرایہ کاٹنا درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئلہ میں جب سائل کی بہن/ والدہ  مذکورہ مکان میں طے شدہ کرایہ کے حساب سے سکونت پذیر تھے، اور انہوں نے طے شدہ کرایہ بھی ادا کیا، تو سائل کے ماموں کے لیے طے شدہ کرایہ سے مزید کرایہ سائل کے والدہ کے حصے سے کاٹنا جائز نہیں ہے، سائل کے ماموں کو چاہیے کہ اپنی بہن کا پورا شرعی حصہ دیدے، ورنہ قیامت کے دن  بدترین عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا، وارث کو پورا حصہ نہ دینے پر مختلف احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدوں کا بھی ذکر ہے، جیسے کہ مندرجہ ذیل روایات میں ہے:

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

ترجمہ:" حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی۔"

وفیہ ایضاً

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".

 (باب الوصایا، الفصل الثالث،1/ 266 ط: قدیمی)

ترجمہ:"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔"

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144402101904

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں