بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن بھائیوں میں تقسیم ترکہ


سوال

1-ہمارےوالدصاحب کاانتقال ہوا، ورثاء میں بیوہ، 8 بیٹےاور2بیٹیاں ہیں۔

2-پھرایک بھائی کاانتقال ہوا، ورثاء میں والدہ، 7بھائی اور2بہنیں ہیں۔

3-پھروالدہ کاانتقال ہوا، ورثاءمیں 7بیٹےاوردوبیٹیاں ہیں۔

وراثت میں زیورات اورایک مکان ہیں، لیکن ورثاء میں سے2 بھائیوں نےزیورات اورمکان پرقبضہ کیاہواہے،دیگرورثاء کواپناحق نہیں دےرہےہیں،  پوچھنایہ ہےکہ کیاان کایہ فعل درست ہے؟، نیزوراثت کی تقسیم کیسےہوگی؟

 

جواب

1-صورت ِ مسئولہ میں والدین کےترکہ میں تمام ورثاء کاحق ہے، بعض ورثاء کا ترکہ پر قبضہ کرکےدوسروں کوان کےحق سےمحروم رکھناگناہ ِکبیرہ ہے، اورآخرت میں پکڑنے کا باعث ہے، لہذا اگرواقعۃ ًوالدین کےترکہ پر دوبیٹوں نے قبضہ کیاہواہے، اوردیگرورثاء کوان کاحق نہیں دےرہےتویہ دوبیٹےسخت گناہ گار ہیں ، ان پرلازم ہےکہ وہ ناجائز قبضہ ترک کرکےکل مال ِوراثت کوتمام ورثاء میں شرعی حصص کےمطابق تقسیم کریں، ورنہ آخرت میں جواب دیناہوگاجوآسان نہ ہوگا۔

2-تقسیم کاشرعی طریقہ یہ ہےکہ مرحومین کے ترکہ  میں سے حقوق متقدمہ یعنی اُن کےتجہیز وتکفین کا خرچ نکالنے  کے بعد ، اگر مرحومین کےذمہ کوئی قرض   ہو  اسے ادا کرنے کے بعد،  اگر مرحومین نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہسے نافذ کرنے کے بعد، باقی ترکہ منقولہ و غیر منقولہ  کے کل 16حصےکرکے2-2حصےہربیٹےکو اورایک ایک حصہ ہربیٹی کوملےگا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:(والدین اوربھائی) مسئلہ:16

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
222222211

یعنی فیصد کےاعتبارسےہربیٹےکو12.5فیصداورہربیٹی 6.25فیصدملےگا۔

تفسیرابن کثیرمیں ہے:

"فقوله تعالى: {يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين} أي: يأمركم بالعدل فيهم، فإن أهل الجاهلية كانوا يجعلون جميع الميراث للذكور دون الإناث، فأمر الله تعالى بالتسوية بينهم في أصل الميراث، وفاوت بين الصنفين، فجعل للذكر مثل حظ الأنثيين؛ وذلك لاحتياج الرجل إلى مؤنة النفقة والكلفة ومعاناة التجارة والتكسب وتجشم المشقة، فناسب أن يعطى ضعفي ما تأخذه الأنثى."

(سورۃالنساء، الآية:11، ج:2، ص:225، ط: دار طيبة للنشر والتوزيع)

بدائع الصنائع میں ہے :

"فأما شركة الأملاك فحكمها في النوعين جميعا واحد، وهو أن كل واحد من الشريكين كأنه أجنبي في نصيب صاحبه، لا يجوز له التصرف فيه بغير إذنه لأن المطلق للتصرف الملك أو الولاية ولا لكل واحد منهما في نصيب صاحبه ولاية بالوكالة أو القرابة؛ ولم يوجد شيء من ذلك وسواء كانت الشركة في العين أو الدين لما قلنا."

(كتاب الشركة،فصل في حكم الشركة،ج:6،ص:65،ط:مطبعة الجمالية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"وحكمها وقوع الزيادة على الشركة بقدر الملك، ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه."

(كتاب الشركة،الفصل الأول في بيان أنواع الشركة،ج:2،ص:301،ط:دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601100643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں