بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف ایک بہن کی موجودگی میں چچاکی اولاد کو میراث ملے گی


سوال

بھائی فوت ہوا جس کی بیوی بھائی سے پہلے وفات پاگئی ،والدین بھی وفات پاگئے، دادا بھی فوت ہو چکا ہے،صرف ایک بہن زندہ ہے باقی متوفی کی بہنیں فوت ہو چکیں ہیں ان بہنوں کی اولاد موجودہیں، متوفی کا چچا بھی پہلے فوت ہو چکا ہے البتہ چچا کی اولاد مرد اور خواتین ہیں؟؟ وراثت چچا کے بچوں کو ملے گی یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ورثاء میں صرف ایک بہن اور چچا کی اولاد ہے تو ایسی صورت میں مرحوم کی آدھی جائیداد مرحوم کی بہن کو ملے گی اور بقیہ آدھی جائیداد مرحوم کے چچا زاد بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگی، چچازادبہنوں کو حصہ نہیں ملے گا ، باقی ترکہ کی تقسیم ورثاء (چچازادبھائیوں) کی تفصیل بتاکر معلوم کی جاسکتی ہے۔ 

قرآن مجید میں ہے:

"يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ"

(سورة النساء؛ آيت: 176)

 "ترجمہ:لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں ۔ آپ فرمادیجئے کہ اللہ تعالی تم کو کلالہ کے باب میں حکم دیتا ہے۔ اگر کوئی مختص مر جائے جس کے اولاد نہ ہو ( اور نہ ماں باپ ) اور اس کی ایک عینی یا علاتی بہن ہو تو اس کو اس کے تمام ترکہ کا نصف ملے گا اور وہ شخص اس اپنی بہن کا وارث ہوگا ۔ ( وہ بہن مر جائے اور ) اس کے اولاد نہ ہو اور والدین بھی نہ ہوں اگر ایسی چند بہنیں دو ہوں ( یا زیادہ) تو ان کو اس کے کل ترکہ میں سے دو تہائی ملیں گے اور اگر وارث بھائی بہن ہوں مرد اور عورت تو ایک مرد کو دو عورتوں کے حصہ کےبرابر ملے گا اللہ تعالیٰ تم سے (دین کی باتیں ) اس لئے بیان کرتے ہیں کہ تم گمراہی میں نہ پڑو اور اللہ تعالی ہر چیز کو خوب جانتے ہیں (ماخوذ از بیان القرآن ،ص:445:مکتبہ رحمانیہ)"

صحیح مسلم  میں ہے :

"حدثنا عبدالأعلى بن حماد وهو النرسي : حدثنا وهيب عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر )"

( صحیح مسلم:باب الحقوا الفرائض باھلھا،فمابقی فلاولی رجل ذکر،ج:5،ص:155،رقم الحدیث:4138،ط:مکتبۃ البشری)

 "ترجمہ:عبدالا علی بن حماد نرسی، وہیب، ابن طاوس بواسطه اپنے والد ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حصہ والوں کو ان کے حصے دے دو پھر جو بچے وہ اس شخص کا ہے جو میت سے سب سے زیادہ قریب ہے۔"

الدرالمختار وحاشیۃ ابن عابدین میں ہے:

"قاله المصنف في شرحه قلت: وفي إطلاقه نظر ظاهر لتصريحهم بأن ابن الأخ لا يعصب أخته كالعم لا يعصب أخته وابن ‌العم لا يعصب أخته وابن المعتق لا يعصب أخته بل المال للذكر دون الأنثى لأنها من ذوي الأرحام قال في الرحبية:وليس ابن الأخ بالمعصب … من مثله أو فوقه في النسب(قوله: لتصريحهم إلخ) حاصله كما في السراجية والملتقى أن من لا فرض لها من الإناث وأخوها عصبة لا تصير عصبة بأخيها وقدمناه منظومابخلاف ابن الابن وإن سفل فإنه يعصب من مثله أو فوقه ممن لم تكن ذات سهم ويسقط من دونه."

(ج:10ص،534،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

'' وباقي العصبات ينفرد بالميراث ذكورهم دون أخواتهم، وهم أربعة أيضاً: العم وابن العم وابن الأخ وابن المعتق، كذا في خزانة المفتين''.

(ج: 6،ص:501،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں