بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھینس کے دودھ میں گائے کا دودھ ملاکر فروخت کرنا


سوال

 میں دودھ کا کام شروع کرنا چاہ رہا ہوں، لیکن عمومی طور پر جو باڑے میں دودھ مارکیٹ میں آتا ہے اس کے اندر بھینس اور گائے کا دودھ مکس ہوتا ہے جس میں سے بھینس کا دودھ 70 فیصد اور گائے کا دودھ 30 فیصد شامل ہوتا ہے، یہ عمومی طور پوری کراچی میں ہوتا ہے، آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اس طرح سے مکس کرکے دودھ بیچنا جائز ہے؟ عمومی طور پر پوری کراچی کی دکانوں پر 99% اسی طرح سے دودھ بکتا ہے۔

جواب

دودھ میں پانی ملاکر بیچنے یا بھینس کے دودھ میں گائے کے دودھ کو  ملانے کی ممانعت اُس وقت ہے جب کہ اس ملاوٹ والے  دودھ کو خالص دودھ کہہ کر بیچا جائے، اَگر گاہک کو پہلے ہی بتادیا جائے کہ اس میں پانی ملا ہوا ہے یا اس میں گائے کا دودھ بھی شامل ہے اور اُس کی اتنی قیمت ہے، اور گاہک اس کو بخوشی خریدے، تو شرعاً اس کی ممانعت نہیں ہے، اور اس طرح کے کاروبار میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر  مذکورہ دودھ جس میں 70 فیصد بھینس کا دودھ ہو اور 30 فیصد گائے کا دودھ ہو اور اس کو خالص بھینس کا دودھ بول کر فروخت کیا جائے، یا لوگوں میں معروف یہی ہو کہ یہ بھینس کا دودھ ہے جب کہ اس میں ملاوٹ ہو تو یہ دھوکا دہی ہے جو جائز نہیں ہے، اور اگر پہلے سے لوگوں کو معلوم ہو  یا خریدتے وقت بتادیا جائے  یا دودھ کی طرف اشارہ کرکے بیچا جائے کہ یہ دودھ ہے اور اس کی قیمت اتنی ہے تو اس  طرح دودھ بیچنا جائز ہوگا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5 / 1935):

"(وعنه) أي عن أبي هريرة (أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مرّ على صبرة طعام) بضم الصاد المهملة وسكون الموحدة ما جمع من الطعام بلا كيل ووزن على ما في القاموس والمراد بالطعام جنس الحبوب المأكول (فأدخل يده فيها) أي في الصبرة (فنالت أصابعه) أي أدركت (بللا) بفتح الموحدة واللام (فقال ما هذا) أي البلل المنبئ غالبا على الغش من غيره (يا صاحب الطعام) أي بائعه (قال أصابته السماء) أي المطر لأنها مكانه وهو نازل منها قال الشاعر:

إذا نزل السماء بأرض قوم ... رعيناه وإن كانوا غضابا

(يا رسول الله) اعتراف بالإيمان وإقرار بالإذعان (قال: أفلا جعلته) قال: أسترت عينه أفلاجعلت البلل (فوق الطعام حتى يراه الناس!) فيه إيذان بأن للمحتسب أن يمتحن بضائع السوقة ليعرف المشتمل منها على الغشّ من غيره، (من غشّ) أي خان وهو ضد النصح (فليس مني) أي ليس هو على سنتي وطريقتي. قال الطيبي: من اتصالية كقوله تعالى: {المنافقون والمنافقات بعضهم من بعض} [التوبة: 67] (رواه مسلم) وروى الترمذي الجملة الأخيرة بلفظ " «من غش فليس منا» " ورواه الطبراني في الكبير وأبو نعيم في الحلية عن ابن مسعود بلفظ " «من غشّنا فليس منّا، والمكر والخداع في النار» ".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200837

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں