بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھینس غصب کرنے کے بعد ضمان کی ادائیگی کے بعد اس کے دودھ اور بچہ سے انتفاع کا حکم


سوال

شاکر کے پاس ایک بھینس تھی، اس سے زبر دستی کرکے ان کا پڑوسی وہ بھینس اپنے گھر لے گیا، چند دن بعد بھینس نے ایک بچہ جن دیا، اور وہ یومیہ دس کلو دودھ دیتی ہے، اور پڑوسی اس دودھ کو بیچتا بھی ہے،  دو مہینے بعد شاکر نے اس سے کہا کہ وہ سب مجھے واپس کر، تو اس پڑوسی نے بچہ ہی غائب کردیا، پھر شاکر نے قیمت وصول کرلی، تو کیا قیمت وصول کرنے کے بعد وہ بچہ اور دودھ سے انتفاع جائز ہے ؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں شاکر  کا پڑوسی اس کی  بھینس  زبردستی لے جانے کی  وجہ سے گناہ گار ہوا ہے، اس پر توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ  وہ  بھینس   شاکر کو واپس کرنا ضروری تھا، اسی طرح اس کا پڑوسی جو   بھینس کا  یومیہ دودھ نکال کر  فروخت کرتا رہا ہے اس  دودھ کی رقم کا ضمان بھی اس پر لازم تھا،   نیز بھینس نے جو بچہ جنا ہے وہ بھی اس کے پاس امانت تھا، بھینس کے ساتھ بچے کو بھی واپس کرنا  ضروری تھا، لہذا شاکر نے    ضمان کی ادائیگی سے پہلے  جو دودھ استعمال کیا ہے اس کی قیمت ادا کرنا واجب ہے، اور   اب اگر اس نے بھینس  کا ضمان ادا کردیا ہے تو ضمان  کی ادائیگی کے بعد  بھینس  اور اس کے دودھ  سے انتفاع جائز ہوگا ، البتہ بھینس کا بچہ  اس کے پاس امانت ہے  اگر وہ موجود ہو  تو  اس کو  واپس کردے، یا شاکر  کو   اس کی بھی  قیمت  ادا کرکے خریدلے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمه فالإثم والمغرم عند العلم وإن كان بدون العلم بأن ظن أن المأخوذ ماله أو اشترى عينا ثم ظهر استحقاقه فالمغرم ويجب على الغاصب رد عينه على المالك وإن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليا كالمكيل والموزون فإن لم يقدر على مثله بالانقطاع عن أيدي الناس فعليه قيمته يوم الخصومة عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى -: يوم الغصب وقال محمد - رحمه الله تعالى -: يوم الانقطاع كذا في الكافي. وإن غصب ما لا مثل له فعليه قيمة يوم الغصب بالإجماع كذا في السراج الوهاج."

(5 / 119، كتاب الغصب، لباب الأول في تفسير الغصب وشرطه وحكمه، ط: رشيدية)

وفیہ أیضاً:

"رجل غصب شاة وحلبها ضمن قيمة لبنها وإن غصب جارية وأرضعت ولدا له لا يضمن قيمة لبنها كذا في الذخيرة."

(5 / 128، كتاب الغصب، الباب الثالث فيما لا يجب الضمان باستهلاكه، ط: رشيدىة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وزوائد المغصوب) مطلقا متصلة كسمن وحسن أو منفصلة كدر وثمر (أمانة لا تضمن إلا بالتعدي أو المنع بعد طلب المالك) ؛ لأنها أمانة."

 (6 / 204، كتاب الغصب، ط: سعيد)

الاختيار لتعليل المختار  ميں ہے:

"زوائد الغصب أمانة، متصلة كانت أو منفصلة، ويضمنها بالتعدي أو بالمنع بعد الطلب. 

(زوائد الغصب أمانة متصلة كانت) كالسمن والجمال والحسن (أو منفصلة) كالولد والعقر والثمرة والصوف واللبن؛ لأن الغصب لم يرد عليها؛ لأنه إزالة يد المالك بإثبات يده، ولم يوجد - فلا يضمن؛ لأن ضمان الغصب، ولا غصب - محال.

قال: (ويضمنها بالتعدي) بأن أتلفه أو أكله أو ذبحه أو باعه وسلمه، (أو بالمنع بعد الطلب) ؛ لأن الملك ثابت للغير، وقد تعدى فيه فيضمنه؛ لما مر. وإن طلب المتصلة لا يضمن بالبيع؛ لأن الطلب غير صحيح؛ لعدم إمكان رد الزوائد بدون الأصل.

وقالا: يضمنها بالبيع والتسليم كالمنفصلة. ولأبي حنيفة أن سبب الضمان إخراج المحل من أن يكون منتفعا به في حق المالك، ولم يوجد هنا؛ لأن الزيادة المتصلة ما كان منتفعا بها في حق المالك؛ لعدم يده عليها، فلا يجب الضمان. ولو زادت قيمتها فعليه قيمتها يوم الغصب لا غير؛ لأنه سبب الضمان على ما تقدم."

(3 / 64، كتاب الغصب، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں