بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھیک مانگنے والے کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں


سوال

بھیک مانگنے والے کو سلام کرنا واجب کیوں نہیں؟ وہ مسلمان ہے اور ہر مسلمان کو سلام کرنا فرض ہے۔

جواب

واضح رہےکہ سلام کرنا سنت ہے، فرض نہیں ہے۔البتہ سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سلام کو عام کرنے اور کثرت سے سلام کرنے کا حکم فرمایا ہے،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر مسلمان کو سلام کرو خواہ اسے پہنچانتے ہو یا نہ پہنچانتے ہو۔لہذا سائل کا یہ سوال کرنا کہ (بھیک مانگنے والےکو سلام کرنا واجب کیوں نہیں ہے؟وہ مسلمان ہے اور مسلمان کو سلام کرنا فرض ہے)یہ درست نہیں ہے۔اگر سائل کا مقصد سوال پوچھنےسے یہ ہو کہ بھیک مانگنے والوں کے سلام کا جواب دینا واجب کیوں نہیں ہے؟تو اس کا  جواب یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو سلام کرے تو اس کا جواب دینا واجب ہوجاتا ہے۔البتہ اس میں یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ سلام کرنے والا"السلا م علیکم"کہہ کر مسنون تحیہ پیش کرنا چاہتا ہے یا اس کی کوئی اور غرض ہے۔اگر ان کلمات سے اس کا مقصد دوسرے شخص کو اس بات پر تنبیہ کرانا ہوکہ وہ اس کی آمد پر مطلع ہو کر اس کو کچھ صدقہ و خیرات دیدےتو ایسی صورت میں سامع پر اس کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے۔اگر  جواب دے  دیا جائے تو  کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن البراء بن عازب رضي الله عنهما قال:أمرنا النبي صلى الله عليه وسلم بسبع: (بعيادة المريض، واتباع الجنائز، وتشميت العاطس، ونصر الضعيف، وعون المظلوم، وإفشاء السلام، وإبرار المقسم. ونهى عن الشرب في الفضة، ونهى عن تختم الذهب، وعن ركوب المياثر، وعن لبس الحرير، والديباج، والقسي، والإستبرق)."

(کتاب الاستئذان،‌‌باب إفشاء السلام،ج:5،ص:2302،رقم:5881،ط:دار ابن كثير،دار اليمامة،دمشق)

وفیہ ایضا:

"عن عبد الله بن عمرو:أن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم: أي الإسلام خير؟ قال: (تطعم الطعام، وتقرأ السلام، على من عرفت، وعلى من لم تعرف)."

(کتاب الاستئذان،‌‌‌باب السلام للمعرفة وغير المعرفة،ج:5،ص:2302،رقم:5882،ط:دار ابن كثير،دار اليمامة،دمشق)

وفیہ ایضا:

"أنا أبا هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (حق المسلم على المسلم خمس: رد السلام، وعيادة المريض، واتباع الجنائز، وإجابة الدعوة، وتشميت العاطس)."

( کتاب الجنائز،باب الأمر باتباع الجنائز،ج:1،ص:418 رقم:1183،ط:دار ابن كثير،دار اليمامة،دمشق)

فتاوی شامی میں ہے:

"إنّ السلام سنة واستماعه مستحبّ، وجوابه أي ردّہ فرض کفایة، وإسماع ردّہ واجب."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج:6،ص:413،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"رد السلام واجب۔۔۔۔"

( کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ  فیھا،ج:1،ص:618،ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"مطلب المواضع التي لا يجب فيها رد السلام

وفي شرح الشرعة: صرح الفقهاء بعدم وجوب الرد في بعض المواضع: القاضي إذا سلم عليه الخصمان، والأستاذ الفقيه إذا سلم عليه تلميذه أو غيره أوان الدرس، وسلام السائل، والمشتغل بقراءة القرآن، والدعاء حال شغله، والجالسين في المسجد لتسبيح أو قراءة أو ذكر حال التذكير."

( کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ  فیھا،ج:1،ص:618،ط: سعید)

درمختار میں ہے:

"(ولا يجب رد سلام السائل) لأنه ليس للتحية."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج:6،ص:413،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"السائل إذا سلم لا يجب رد سلامه، كذا في الخلاصة. السائل إذا أتى باب دار إنسان فقال: السلام عليك لا يجب رد السلام عليه."

(کتاب الکراھیۃ،‌‌الباب السابع في السلام وتشميت العاطس،ج:5،ص:325،ط:دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں