بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھیک مانگنے اور اس سے حاصل ہونے والے پیسوں کا حکم


سوال

ایک مالدار شخص ہے، جو کمانے پر قادر ہے، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو غریب مسکین ظاہر کرکےلوگوں سے امداد اور صدقے کے نام پر بھیک مانگ کر  پیسے وصول کرتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جو پیسے اس نے امداد اور صدقہ کے نام  پرلوگوں سےلیے ہیں  کیا اس کے ذمے ان پیسوں کو لوٹانا واجب ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  شریعت میں کسی واقعی حاجت  کو پورا کرنے کی غرض سے اگر کوئی  شخص بامرِ مجبوری دستِ سوال دراز کرکے اپنی حاجت پوری کرلے تو اس کی گنجائش ہے  لیکن اس کام کو مستقل پیشہ بنالینا   اور بلا ضرورت مانگنا گناہِ کبیرہ ہونے کی وجہ سےکسی طرح بھی درست نہیں۔ اسلام میں ایسے عمل کی حوصلہ شکنی کرکے معاشرے کی صلاح و فلاح کی خاطر  انسان کو اپنےزورِبازو سے کمانے کی ترغیب دی گئی ہےاور  محنت کی کمائی کو  ہی اللہ کے نزدیک  سب سے محبوب اور پسندیدہ کمائی  قراردیا ہے،چناں چہ  آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ"اللہ تعالیٰ کو وہ کھانا سب سے زیادہ پسند ہے جسے انسان اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے."۔

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:'' کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے."

 جب کہ اس کے برخلاف جو لوگ  کمانے پر قدرت رکھنے کے باوجودبلا ضرورت لوگوں سے مانگتے ہیں ان کے لیے حدیث میں شدید وعیدیں آئی ہیں ،جن میں سے بعض یہ ہیں:

٭ قیامت کے دن ایسے شخص کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا،(یہ صورت دنیا میں اپنی عزت گنوانے کی علامت ہوگی)۔ 

٭ ایسا شخص جہنم کے انگارے جمع کررہا ہے،زیادہ بھیک ملی تو زیادہ  انگارے جمع کرلیے ،کم بھیک ملی تو کم انگارے جمع کیے۔

٭ ایسے شخص کی کمائی میں بالکل بھی برکت نہیں ہوتی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے لیے (باوجود مال داری اور کمانے پر قدرت حاصل ہونے کے) بھیک مانگنا جائز نہیں ہے، تاہم اب تک لوگوں سے جتنی رقم امداد اور نفلی صدقات کے نام پر بھیک مانگ کر لی ہے ،اب وہ اس رقم کا مالک ہےاور اپنی مرضی سے جہاں چاہے صرف کرسکتا ہےاوردینے والا ثواب کا مستحق ہوگا،لیکن اگر مذکورہ شخص کو کسی نے ظاہرِ حال سےمستحق سمجھ کر  صدقاتِ واجبہ یا زکات وغیرہ دی ہو  تو اس کی زکات اور واجب صدقات تو ادا ہوجائیں گے، لیکن  مذکورہ شخص پر اتنی رقم اصل مالک کوواپس کرنا لازم ہوگا؛کیوں کہ درحقیقت  ایسی صورت میں مالک کی رضامندی کے بغیر  اس کا مال لیا گیا ہے۔

مسندأحمد میں ہے:

"عن المقدام بن معدي كرب، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ‌ما ‌أكل ‌أحد ‌منكم ‌طعاما أحب إلى الله عز وجل من عمل يديه."

(مسند الشاميين،‌‌ حديث المقدام بن معديكرب الكندي أبي كريمة  عن النبي صلى الله عليه وسلم، ج:28، ص:418، رقم الحديث:17181، ط: مؤسسة الرسالة)

بخاری شریف میں ہے:

"عن المقدام رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (‌ما ‌أكل ‌أحد ‌طعاما ‌قط، خيرا من أن يأكل من عمل يده، وإن نبي الله داود عليه السلام كان يأكل من عمل يده)."

(كتاب البيوع، باب: كسب الرجل وعمله بيده، ج:1، ص:278، ط:قديمي)

وفیہ أیضاً:

"عن عبيد الله بن أبي جعفر قال: سمعت حمزة بن عبد الله بن عمر قال: سمعت عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (ما يزال الرجل يسأل الناس، حتى يأتي يوم القيامة ‌ليس ‌في ‌وجهه ‌مزعة ‌لحم) إلخ."

(كتاب الزكاة،باب: من سأل الناس تكثرا،ج:1، ص:199، ط:قديمي)

صحیح مسلم میں ہے: 

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌من ‌سأل ‌الناس ‌أموالهم تكثرا، فإنما يسأل جمرا فليستقل، أو ليستكثر »."

وفیہ أیضاً:

"عن معاوية قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌لا ‌تلحفوا ‌في ‌المسألة، فوالله لا يسألني أحد منكم شيئا، فتخرج له مسألته مني شيئا، وأنا له كاره، فيبارك له فيما أعطيته."

(كتاب الزكاة، ‌‌باب النهي عن المسألة، ج:1، ص:333، ط:قديمي)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار کسی پر بھی ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو!کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی  کے بغیر  حلال نہیں ہے۔"

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ص: 255، ط: قديمي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال النووي في شرحه: ‌اتفق ‌العلماء ‌على ‌النهي عن السؤال لغير ضرورة، واختلف أصحابنا في مسألة القادر على الكسب على وجهين أصحهما أنهما حرام لظاهر الأحاديث، والثاني حلال مع الكرهة بثلاثة شروط ألا يذل نفسه ولا يلح في السؤال ولا يكلف بالمسئول، فإن فقد أحد الشروط فحرام بالاتفاق."

(كتاب الزكاة، باب من لا تحل له المسألة ومن تحل له، الفصل الأول،ج:4، ص:174، ط:إمدادية، ملتان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(دفع بتحر) لمن يظنه مصرفا (فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي ولو مستأمنا أعادها)لما مر (وإن بان غناه أو كونه ذميا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا) يعيد لأنه أتى بما في وسعه.

(قوله: لمن يظنه مصرفا)....واعلم أن المدفوع إليه لو كان جالسا في صف الفقراء يصنع صنعهم أو كان عليه زيهم أو سأله فأعطاه كانت هذه الأسباب بمنزلة التحري كذا في المبسوط حتى لو ظهر غناه لم يعد."

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:352،353، ط:سعيد)

وفیہ أیضاً:

"‌لأن ‌الملك ‌ما ‌من ‌شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص."

(كتاب البيوع، ج:4، ص؛502،ط:سعيد)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"يحرص الإسلام على حفظ كرامة المسلم، وصون نفسه عن الابتذال والوقوف بمواقف الذل والهوان، فحذر من التعرض للصدقة بالسؤال، أو بإظهار أمارات الفاقة، بل حرم السؤال على من يملك ما يغنيه عنها من مال أو قدرة على التكسب، سواء كان ما يسأله زكاة أو تطوعا أو كفارة، ولا يحل له أخذ ذلك إن أعطي بالسؤال أو إظهار الفاقة قال الشبراملسي: لو أظهر الفاقة وظنه الدافع متصفا بها لم يملك ما أخذه، لأنه قبضه من غير رضا صاحبه، إذ لم يسمح له إلا على ظن الفاقة لقوله صلى الله عليه وسلم: من سأل الناس وله ما يغنيه جاء يوم القيامة ومسألته خموش، أو خدوش، أو كدوح قيل: يا رسول الله، وما يغنيه؟ قال: خمسون درهما أو قيمتها من الذهب وعنه صلى الله عليه وسلم: إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله وقال عليه الصلاة والسلام: لا ينبغي للمؤمن أن يذل نفسه.

أما إن كان محتاجا إلى الصدقة، وممن يستحقونها لفقر أو زمانة، أو عجز عن الكسب فيجوز له السؤال بقدر الحاجة، وبشرط أن لا يذل نفسه، وأن لا يلح في السؤال، أو يؤذي المسئول، ولم يعلم أن باعث المعطي الحياء من السائل أو من الحاضرين، فإن كان شيء من ذلك فلا يجوز له السؤال وأخذ الصدقة وإن كان محتاجا إليها، ويحرم أخذها ويجب ردها إلا إذا كان مضطرا بحيث يخشى الهلاك إن لم يأخذ الصدقة لحديث: لا ينبغي للمؤمن أن يذل نفسه. فإن خاف هلاكا لزمه السؤال إن كان عاجزا عن التكسب. فإن ترك السؤال في هذه الحالة حتى مات أثم لأنه ألقى بنفسه إلى التهلكة، والسؤال في هذه الحالة في مقام التكسب؛ لأنها الوسيلة المتعينة لإبقاء النفس، ولا ذل فيها للضرورة، والضرورة تبيح المحظورات كأكل الميتة."

(السؤال،‌‌ الحكم التكليفي،‌‌ ثانيا - السؤال بمعنى طلب الحاجة، ج:24، ص:97،98، ط:وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - كويت)

فتاوی محمودیہ میں (صدقاتِ نافلہ کے متعلق لکھا)ہے:

"کسی نے بھیک مانگ کر جو غلہ جمع کیا ہے،وہ اس کا مالک ہوگیا ،جب وہ دوکان پر لے جا کر فروخت کرتا ہے تو دوکان دار کو اس کا خریدنا درست ہے."

(کتاب البیوع، باب البیع الصحیح، زیرِ عنوان:بھیک کے مال کی فروختگی، ج:16،ص:59،60، ط:إدارۃ الفاروق  ،کراچی)

وفیہ ایضاً:

"اس کو اس طرح بھیک مانگنے کی اجازت نہیں تھی لیکن جو روپیہ اس کی ملک ہوچکا اور اس نے مسجد میں دے دیا وہ مسجد کے لیے درست ہے."

(باب أحکام المساجد(مسجد کے أحکام کا بیان)، الفصل الخامس عشر فی جمع التبرعات للمسجد بطریق الاکتتاب (مسجد کے لیے  چندہ جمع کرنے کا بیان)زیرِ عنوان:بھیک کا پیسہ مسجد میں صرف کرنا،ج:23،ص:214، ط:إدارۃ الفاروق  ،کراچی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144504100511

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں