بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ کی صحت کی حفاظت کی خاطر عزل کرنے کا جواز


سوال

 میری شادی کو 2 سال ہونے والے ہیں، الحمدللہ پہلی بیٹی ہوئی 12 مہینہ کے اندر، اور ہم نے نیت کی کہ ان شاءاللہ اس کو ماں کا دودھ پلائیں گے ،جو اس کا حق ہے، لیکن 3 ماہ بعد ہی میری بیوی دوبارہ حمل سے ہوگئی ،مجبوراً دودھ چھڑوانا پڑا، اور بیٹی کمزور ہونا شروع ہوگئی ،ڈاکٹرز اور لوگوں کی سننا پڑی کہ حق ادا نہیں کیا بیٹی کا،  لیکن اب ان شاءاللہ دوسرا آنے والا ہے اس کے حقوق ان شاءاللہ پورے کریں گے، بس سوال یہ ہے کہ شادی کو زیادہ وقت نہیں ہوا ،اور دونوں ایک دوسرے سے لذت بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں ، تو کیا کرنا چاہیے، کیونکہ اگر اولاد کے ڈر سے اپنی جسمانی ضروریات پوری نہیں کریں گے تو مزاج میں تبدیلی پیدا ہوگی،بیوی کو کرنے سے روکوں گا تو معاملات خراب ہوں گے دو سال حق بھی پورا کرنا ہے اولاد کا۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں نکاح  کے من جملہ اغراض ومقاصد میں سے  ایک اہم مقصد توالد وتناسل  ہے، اور  اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ مبارک میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، تاہم اگر عذر شرعی کی بناء پر میاں ، بیوی صرف اپنی جسمانی خواہشات پوری کرنا چاہیں اور مزیداولاد یا دو بچوں کے درمیان اس غرض سے مناسب وقفہ کے لیے کہ بچے کو ماں کی صحیح نگہداشت مل سکے، اور دوسرے بچے کا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے پہلے بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر اور نقصان دہ نہ بنے،تو اس صورت میں شرعاً اولاد کے درمیان وقتی اور عارضی قفہ کی گنجائش ہےیعنی ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے کہ جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے ،اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہو،باقی آپریشن کرکے بچہ دانی  نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل   (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے ،شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔

باقی وقتی وقفہ کے لیے عزل کا طریقہ اختیار کیا جاسکتاہے کہ انزال (خروج منی )کے وقت پانی (نطفہ) شرمگاہ سے باہر پھینکاجائے۔

البتہ فی زمانہ کنڈوم یا اس مقصد کے لیے غیر مضر دواستعمال کرنےکی بھی گنجائش ہے ۔

الدرمع الرد  میں ہے :

"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة، نهر بحثاً، (بإذنها)، لكن في الخانية أنه يباح في زماننا؛ لفساده، قال الكمال: فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها، وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج، (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة.
(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم." 

(کتاب النکاح ، مطلب فی حکم العزل ج : 3 ص : 175 ط : سعید)

وفیہ ایضاً : 

"(والإذن في العزل) وهو الإنزال خارج الفرج."

(کتاب النکاح ، مطلب في حکم العزل ج : 3 ص : 175 ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101735

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں