بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائیوں کا بہنوں کو حصہ نہ دینے کا حکم،نیز تقسیم میراث


سوال

زیداور اس کی بیوی کا انتقال ہوچکا ہے ان کے پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں، زید کے تین مکان تھے، جس میں سے اس نے اپنی زندگی ہی میں ایک فروخت کردیا تھا اور ایک اپنے پانچ بیٹوں میں تقسیم کردیا تھا، اور اس دوسرے مکان کی تقسیم کی شکل یہ ہے کہ ہر بیٹے کے دو دو کمرے مساوی مساوی ہیں اور اس پر پانچ بیٹے اورچھ بیٹیاں راضی بھی تھیں اور اب اس تقسیم پر راضی بھی ہیں، اب بچا ایک گھر اس کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ پانچ بیٹے کہتے ہیں کہ والد نے بیٹیوں کی شادی کی اور ان کو اس طرح اور اس طرح مال دیا، لہذااب اس آخری گھر میں ان بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں، ہم صرف پانچ بھائیوں کا ہی حصہ ہے، تو پوچھنا یہ ہے کہ اس کو تقسیم کس طرح کیا جائے اور اگر فروخت کرتے ہیں تو اسکی قیمت 55لاکھ روپیہ ہوگی تو اس 55لاکھ روپیہ کو کس طرح تقسیم کریں؟ اور اگر اس بچے ہوۓ مکان میں سے بہنوں کو کوئی حصہ نہ دیا گیا تو کیا اس بارے میں الله کے یہاں کوئی پکڑ ہوگی یا نہیں اور اگران پانچوں میں سے کوئی ایک اگر ہمت کرکے بہنوں کو کچھ اپنے ملے حصہ میں سے دے تو کیا وہ دینے والا الله کے پاس بری ہوگا؟ اور یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ ساری بہنیں ماشااللہ سے اچھے گھرانے میں ہیں کوئی قلاش ومفلس بھی نہیں ہے بس اب عرض یہی ہے کہ اس مکان کی میراث کو تقسیم کس طرح کیا جائے جواب عنایت فرمائیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی شخص کے انتقال کے بعد اس کی تمام متروکہ اشیاء و جائیداد میں اس کے تمام شرعی ورثاء کا حق متعلق ہو جاتا ہے، اور ہر وارث اپنے اپنے شرعی حصوں کے حساب سے اس میں شریک ہو جاتا ہے، اور کسی وارث کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ دوسرے وارث کے حصے پر قبضہ کرے، ایسا کرنا شرعاً ناجائز و حرام اور موجبِ عذاب ہے، حدیثِ مبارک میں اس پر  بڑی وعیدیں آئی ہیں ، حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی،  ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے  ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں زید کے متروکہ مال و جائیداد میں زید کی تمام اولاد(بیٹوں ، بیٹیوں )کا شرعاً حق و حصہ ہے، اس لئے ہر بیٹی ، بیٹے کو اس کا پورا پورا شرعی حصہ ادا کرنا لازم ہے، اور کسی بھی بیٹے کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی کسی بھی بہن کے شرعی حصے پر قبضہ کرےورنہ روزِ قیامت  سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا،اس لئے ہر بھائی پر لازم ہے کہ وہ بہنوں کو ان کا پورا پورا حصہ اداکرے، ورنہ جس بھائی کو حصہ مل جائے وہ اپنے ملنے والے حصے میں سے جتنا حصہ بہنوں کا آیا ہو وہ انہیں ادا کردے تا کہ وہ آخرت کے عذاب سے بچ سکے۔(اوربہنیں عدالتی قانونی کاروائی کر کے بھی اپنا حصہ وصول کر سکتی ہیں) باقی زید نے اپنی زندگی میں جس مکان کے دو،دو کمرے اپنے پانچوں بیٹوں میں تقسیم کئے تھے، اگر یہ تقسیم مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ تھی تو ایسی صورت میں اس گھر میں ہر بیٹا اپنے اپنے حصے کے دو،دو کمروں کا مالک بن چکا تھا ،جو کہ اب انہی کے ہوں گے،اور اگر زید نے صرف زبانی یا تحریری طور پر نام کئے تھے اور ہر بیٹے کے قبضے و تصرف میں دو،دو کمرے متعين كر كے دیئے نہیں تھے تو ایسی صورت میں وہ گھر بھی زید کی میراث شمار ہو گا،اور تیسرے گھر کے ساتھ یہ دوسرا گھر بھی زید کے تمام بیٹے ، بیٹیوں میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا،جس کی تفصیل یہ ہے کہ:

مرحوم  کے حقوقِ متقدمہ( یعنی کفن،دفن)کا خرچ( اگر کسی نے بطورِ قرض کیا ہو تو وہ)  نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمے کوئی قرض ہو تو وہ ادا کرنے کے بعد،اور  اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی  میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل ترکہ منقولہ و غیرمنقولہ  کو16 حصوں میں تقسیم کر کے دو ، دو ، حصے ہر ایک بیٹے کو،اور ایک، ایک حصہ ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:16

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
22222111111

یعنی فیصد کے حساب سے 100 روپے میں سے 12.5 روپے ہر ایک بیٹے کو اور 6.25 روپے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

قرآنِ کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا" ﴿النساء: ٧﴾

مشکاۃ المصابیح میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی منقول ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

وفیہ ایضاً: 

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".

(1/266، باب الوصایا، الفصل الثالث،  ط: قدیمی)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لایجوز، ج:4،ص:378،ط:مکتبة رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة."

(الدر المختار و حاشية ابن عابدين ، كتاب الهبة 5 / 689 ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100786

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں