بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیک وقت تین طلاقیں دینے کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاق دے دے اور اس پر شاہد بھی موجود ہوں تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی ؟ براہِ کرم اس کا مدلل جواب عنایت فرمائیں نیز اگر وہی شخص اپنی مطلقہ بیوی سے خود کو حنفی کہتے ہوئے دوبارہ نکاح کر لے تو اس سے کیا رویہ رکھا جائے آیا اس سے سلام و ملاقات رکھنا بہتر ہے یا نہ رکھنا بہتر ہے براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

جواب

قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے متفقہ فتوی کی رو سے ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں چاہے اس پر کوئی گواہ ہو یا نہ ہو، جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں ان کا قول قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ کے متفقہ فتوی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے۔

نیز تین  طلاقوں کے بعد کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح اور ازدواجی تعلقات قائم کیے بغیر، یا اس سے طلاق یا خلع لیے بغیر، یا دوسرے شوہر کے انتقال کے بعد عدت گزارے بغیر پہلے شوہر سے نکاح جائز نہیں ہے، اسی حالت میں بیوی کو ساتھ رکھنا اور  آپس میں تعلق قائم کرنا حرام اور زنا کے حکم میں ہے؛ لہذا اس کے متعلقین کی ذمہ داری ہے کہ وہ  اسے سمجھا کر سابقہ بیوی سے جدا کرنے کی پوری کوشش کریں، اور اگر مذکورہ شخص اپنی سابقہ بیوی سے الگ نہیں ہوتا  تو اس کے رشتہ داروں اور اہلِ محلہ کو چاہیے کہ اس سے معاشرتی بائیکاٹ رکھیں؛ تا وقتیکہ  وہ تائب  ہو کر اپنی سابقہ بیوی کو اپنے سے جدا نہ کر لے۔

حكام القرآن للجصاص میں ہے:

 "فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاعَ الثلاث معا وإن كانت معصية".(ج:1، صفحه: 529، ط: قدیمی)

حدیث شریف میں ہے:

"حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»".

(صحیح البخاری، باب من أجاز طلاق الثلاث، ج: 7، صفحہ: 42، رقم الحدیث: 5260، ط: دار طوق النجاة) 

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته: أنت طالق ثلاثا، فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفةَ وأحمد وجماهيرالعلماء من السلف والخلف: يقع الثلاث."

(کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث، ج:1، ص:474، ط:قدیمی کتب خانہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث".

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:233، ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101334

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں