بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع صرف میں ادھار جائز نہیں ہے


سوال

گولڈ مارکیٹ میں ہفتہ وار وعدے پر سونے کی تجارت کچھ یوں ہوتی ہے کہ فون پر وعدہ لیا جاتا ہے کہ (ARY Gold Bar 10 tola) دکان دار ہمیں 1 پیس گولڈ دینے کا پابند ہے ہفتے کے اندر ،جب بھی ہم مطالبہ کریں گے، قیمت مطلب ریٹ پکا کرتے ہیں جو چل رہا ہوتا ہے. کچھ رقم ایڈوانس دی جاتی ہے اب ہفتے کے درمیان جب بھی سونا مہنگا ہوتا ہے تو ہم دُکاندار کے پاس جاتے ہیں اور اس سے اپنا سونا لینے کے بعد اس کو ہی بیچ دیتے ہیں، اس کے بعد وہ منافع اور جو ایڈوانس رقم ہم نے اس کو دی تھی وہ ہمیں واپس کر دیتا ہے اور اگر نقصان ہوتا ہے تو وہ ہمارا ایڈوانس میں سے کاٹ لے گا(طریقہ کار بتا دیں)  ایڈوانس رقم کو کیا کہنا بہتر ہے، اسے ایڈوانس کہیں اسے بیعانا کہیں یا اسے قیمت خرید ہی تصور کریں، مطلب 15 لاکھ کا پیس ہے اور 1 لاکھ پہلے دینا ہے، لیکن اگر قیمت خرید کہیں گے تو بیع کہلاتی ہے، لیکن ہم نے تو ابھی سونے پر قبضہ نہیں کرنا تو اس  سے بیع فاسد تو نہیں ہو جائے گی؟ مطلب پُوری رقم کا انتظام نہیں کرنا پڑتا اور 5 لاکھ سے دس پیس کا وعدۂ کر کے ریٹ اُوپر نیچے ہونے پر سونا قبضے میں لینے کے بعد اس کو فروخت کر دیا ،مطلب وعدہ بیع لیا اسے ایڈوانس رقم دی،  اب بیع بعد میں ہو گی ،جب ریٹ تبدیل ہو گا، یہاں ایک اور مسئلہ کے اگر وعدہ کرتے وقت میں مال پر قابض ہو کر واپس اس کی تجوری لاکر میں رکھوالوں کہ جب میں دُکاندار کو فون کروں گا تو وہ خرید لے، ایسا کرنا کیسا یہاں شبہ یہ ہے کہ اگر اس نے میرے قبضہ والا سونا اپنے سونے کے ساتھ مکس کر دیا تو پھر اس سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا، مطلب اگر رات کو دیر سے جب دُکان بند ہے، میں نے دُکاندار کو فون پے کہا کہ میں نے سونا بیچنا ہے اور وہ راضی ہو جائے تو کیابیع ہو جائے گی یا نہیں؟  کیا یہاں شک کرنا صحیح ہے یا ہمیں اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے سارے پیس ایک جیسے فیکٹری سے نکلے ہوتے ہیں مزید یہ کہ کیا سونا اس کا خود خریدنا ضروری ہے یا وہ کسی اور کو بھی بیچ سکتا ہے اگر وہ کسی اور کو بھی بیچ رہا ہے تو ہمیں وہ ہر دفعہ نہیں بتائے گا بےشک ہم اُس کی دکان پر ہی بیٹھے ہوں ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اس کو ہی بیچا ہے وہی ذمہ دار ہے مطلب قبضے کے بعد دُکاندار کو واپس بیچتے وقت اُس کا خود خریدنا ضروری ہے یا وہ اگلی پارٹی کو بیچ سکتا ہے اور اگر اگلی پارٹی کو بیچنا میرے علم میں نہیں ہے تو کیا حکم لگتا ہے وہ منافع جائز ہے یا ناجائز؟  اور اس سارے عمل کے جائز طریقے کار کو بھی بیان کر دیں۔

جواب

واضح رہے کہ سونے کے زیورات کی سونے یانقدرقم کے بدلے فروخت  بیع صر ف کہلاتی ہے، جس کے شرعاً جائزہونے کے لیے ضروری ہے کہ معاملہ دونوں جانب سے نقدہو،ایک ہاتھ سے سونے کے زیوارت دیئے جائیں  اوردوسرے ہاتھ سے سونایارقم لی جائے یعنی: ،مجلس عقد میں متعاقدین کا بدلین مبیع اور ثمن پر قضبہ ضروری ہے،ادھارکی صورت میں یہ معاملہ ناجائزہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ طریقہ کار پر سونے کی خریدوفروخت کرنا جائز نہیں ہے، اس میں کئی قسم کی خرابیاں پائی جاتی ہیں مثلاً: بیع صرف میں ادھار کا معاملہ، قبضہ سے قبل آگے فروخت کرنا وغیرہ۔

اس کی جائزصورت یہ ہوسکتی ہے کہ پیشگی زرضمانت لے کر مطلوبہ زیورتیارکیاجائے ،جب زیورات اوررقم یاسونادونوں موجودہوں اس وقت حتمی سوداکیاجائے۔

نیز مذکورہ میں بیع ہی ہے اور یہ بیع کہلائے گی، وعدہ بیع نہیں ہے، اس لیے تو نقصان کا ضامن ٹھہرایا جاتا ہے۔

فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

"ولا يجوز بيع الذهب بالذهب ولا الفضة بالفضة إلا مثلا بمثل تبرا كان أو مصنوعا أو مضروبا."

(کتاب الصرف ،الباب الثانی فی احکام العقد،218/3،ط:مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ)

فتح القدیر  میں ہے:

"(ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) لما روينا، ولقول عمر -رضي الله عنه-: وإن استنظرك أن يدخل بيته فلاتنظره، ولأنه لا بد من قبض أحدهما ليخرج العقد عن الكالئ بالكالئ ثم لا بد من قبض الآخر تحقيقًا للمساواة فلايتحقق الربا، ولأن أحدهما ليس بأولى من الآخر فوجب قبضهما سواء (قوله: ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) بإجماع الفقهاء. وفي فوائد القدوري: المراد بالقبض هنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد، وذكرنا آنفا أن المختار أن هذا القبض شرط البقاء على الصحة لا شرط ابتداء الصحة لظاهر قوله: فإذا افترقا بطل العقد، وإنما يبطل بعد وجوده وهو الأصح. وثمرة الخلاف فيما إذا ظهر الفساد فيما هو صرف يفسد فيما ليس صرفًا عند أبي حنيفة - رحمه الله -، ولايفسد على القول الأصح". 

(باب الصرف، ج: 6، 260، ط: رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں