بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کا بھائی کے ساتھ عملی معاونت کا حکم


سوال

 عرض یہ  ہے کہ 12 سال پہلے میرے والد اور  چچا کے درمیان جو جائیداد مشترک تھی سب کو تقسیم کردیا  تھا ، ان میں سےایک کاروبار   ایسا تھا  جس میں  میرے والد اور چچا   کے علاوہ میں  اور میرا بھائی بھی شریک تھا اس کاروبار   کو ہم نے ثالثین کی موجودگی میں  باہمی رضامندی سے تین حصوں میں تقسیم کیا     ،ایک  حصہ میرے والد ، ایک حصہ چچا اور ایک  حصہ مجھے اور میرے بھائی     کو ملا۔

            میرے اور میرے  بھائی   کے اس کاروبار  (جو تیسرا حصہ ہمیں ملا تھا)نے   11 سال کے عرصے سے      میں بہت ترقی کی ، گزشتہ چند سالوں  میں  ہم دونوں  کے ساتھ ہمارے چھوٹے تین بھائیوں نے بھی   ایک ساتھ اور  ایک گھر میں رہنے کی  وجہ سے   ہماری معاونت  کی ،اس کاروبار میں  ان تین چھوٹے بھائیوں   کے ساتھ کسی قسم کا معاہدہ    یا تنخواہ  کی  کوئی بات نہیں ہوئی تھی ، البتہ  ایک گھر میں اور ایک  ساتھ رہنے کی وجہ سے انہوں ہم دونوں بھائیوں کی بھر  پور معاونت کی   ہے۔

      اب سوال یہ  ہےکہ میں اور میرا یہ بھائی جو میرے ساتھ اس کاروبار میں  شریک ہیںجدا ہونا چاہتے  ہیں   ، تو  اس میں ہمارے  ان تین  بھائیوں  کے لیے کیا  حکم ہوگا؟ کیا ان کا  بھی حصہ ہوگا   یا ان کو     اتنے عرصہ   کا  مناسب تنخواں کا حساب    لگا   کر ان کو دیا جائے    یا    ان کا  یہ عملی محنت تبرع  شمار ہوگا؟

ایسی صورت کا  جو بھی شرعی حکم ہو اس سے  مطلع فرمائیں!

           نیز ہماری 5 بہنیں  بھی ہیں ،  کیا  ان کا بھی  میرے اور میرے اس کاروبا میں حصہ ہے  ،  جب کہ ہماری  اپنی اولاد موجود ہیں؟ 

            واضح  ہو   کہ میرے اور میرے  اس بھائی  کے کاروبار   کا  حکم   معلوم کرنا مقصود ہے   ،  ہماری والد کی جائیدا د کی تقسیم مطلوب نہیں !

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  سائل کے بیان کے مطابق سائل اور اس کے  بھائی کے  کاروبار میں  ان کے تین چھوٹے بھائیوں  نے عملی معاونت  کی  ہے، جب کہ  ان کے ساتھ کسی قسم کا معاہدہ نہیں  ہوا تھا تو شرعًا ان بھائیوں  کی یہ معاونت   تبرع شمار ہوگی،   سائل اور اس کے  ساتھ شریک بھائی  کی اس کاروبار اور   اس   کے منافع سے خریدی گئی جائیداد   میں ان تین بھائیوں  کا کوئی  حصہ نہیں ہے ، البتہ   سائل اور اس کے بھائی کو چاہیے   کہ اپنے ان تین بھائیوں   کوبھی   باہمی رضامندی سے  بطورِ  احسان   کچھ نہ کچھ   دے دیں؛ تاکہ ان کی دل آزاری نہ ہو ۔

باقی کاروبار  چوں کہ سائل اور اس کے بھائی کا ذاتی ہے، والد کا نہیں ہے تو   ان  کے اس کاروبار  میں  بہنوں  کا شرعًا  کوئی حق نہیں ہے،  البتہ والد کے انتقال  کے بعد والد کی جائیداد  میں    اس کی بیٹیوں (سائل کی بہنوں ) کا حصہ ہوگا۔

کفایۃ المفتی میں ہے:

"جب لڑکوں نے جدا جدا کمایااور جدا جدا جائیداد بنائی تو ہر ایک اپنی جائیداد کا جداگانہ مالک ہوگا، صرف ہم طعام ہونے سے جائیداد مشترک نہیں ہوجاتی، ہاں باپ کا ترکہ قاعدہ وراثت کے مطابق سب وارثوں میں تقسیم ہوگا۔"

                          (کفایۃ المفتی 8/284)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 18)ميں  ہے:

"قال علمائنا :أب وابن ‌يكتسبان ‌في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب."

   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں