کیا اپنے بھانجے یا بھتیجے کو جو بے روز گار ہیں، ان کو زکاۃ دی جا سکتی ہے؟
بھتیجےاور بھانجے اگر زکاۃ کے مستحق ہیں یعنی ان کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر رقم نہ ہو ، اور نہ ہی اس قدر ضرورت و استعمال سے زائد سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ سید ، ہاشمی ہیں تو ان کو زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ ان کو زکاۃ دینے میں دوہرا اجر ہے، زکاۃ کا بھی، اور صلہ رحمی کا بھی۔
شامی میں ہے:
"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة.
وفي الظهيرية: ويبدأ في الصدقات بالأقارب."
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 346)، [باب مصرف الزكاة والعشر]، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144210200979
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن