اگر کسی حاملہ عورت نے کوئی بھاری وزن اٹھایا اور اس وزن اٹھانے کے تین دن بعد ڈاکٹر کے پاس گئی ،ڈاکٹر نے کہا کہ یہ بچہ تین دن پہلے مرچکا ہے ،عورت کے گمان کے مطابق یہ اسی بھاری وزن کی وجہ سے مرچکا ہے ،اس کا کیا حکم ہے؟حمل 4 ماہ سے زائد کا تھا۔
صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ عورت کا بھاری وزن اٹھانے سے مقصدحمل کو ضائع کرنا نہیں تھا ،بلکہ کام کاج کے دوران عدم ِاحتیاط کی بناء پر ایسا ہوا ہے یا حمل ضائع کرنا مقصد تھا تواس صورت میں شرعاغرۃ(حمل ضائع کرنے کا ضمان)لازم نہیں ہے،لیکن اگر اس عورت نے شوہر کی اجازت کے بغیر حمل ضائع کرنےکی نیت سےبھاری وزن اٹھایا تھا تو اس صورت میں اس عورت کے عاقلہ پر غرۃیعنی پانچ سو درہم (موجودہ وزن کے حساب سے 131.25 تولہ چاندی) لازم ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(وضمن الغرة عاقلة امرأة) حرة في سنة واحدة وإن لم تكن لها عاقلة ففي مالها في سنة أيضا صدر الشريعة ولا تأثم ما لم يستبن بعض خلقه ومر في الحظر نظما(أسقطته ميتا) عمدا (بدواء أو فعل) كضربها بطنها (بلا إذن زوجها فإن أذن) أو لم يتعمد (لا) غرة لعدم التعدي.
(قوله ففي مالها) أي في رواية وعلى عاقلتها في رواية وهو المختار جامع الفصولين: أي لما سيأتي آخر المعاقل أن من لا عاقلة له فالدية في بيت المال في ظاهر الرواية، وعليه الفتوى، وإن رواية وجوبها في ماله شاذة ويأتي تمامه هناك إن شاء الله تعالى.
(قوله كضربها بطنها) وكما إذا عالجت فرجها حتى أسقطت كفايةأو حملت حملا ثقيلا تتارخانية أي على قصد إسقاطه كما علم مما مر."
(کتاب الدیات،فصل فی الجنین،6/ 591،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100294
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن