بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھارت کے بینکوں میں مسلمانوں کا ملازمت کرنے کا حکم


سوال

  بھارت کے مسلمانوں کا بھارت کے بینکوں میں ملازمت اختیار کرنا کیسا ہے ؟ 

جواب

بینک چوں کہ سودی ادارے ہیں ،جہاں سودی لین دین ہوتا ہےاور شریعت مطہرہ میں سود حرام ہےاور اسے اللہ تعالیٰ اور رسول کے ساتھ کھلی جنگ قرار دیا گیا ہےاور حدیث میں سود لینے والے ،دینے والے ،سودی معاملہ لکھنے والے ،سودی معاملہ میں گواہ بننے والے الغرض سودی معاملہ میں کسی قسم کا بھی تعاون کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے،لہذا جس طرح سود کا لینا اور دینا حرام ہے،اسی طرح اس میں کسی قسم کاتعاون کرنا بھی حرام ہے،لہذا   بھارت کے مسلمانوں کا بھارت کے بینکوں میں ملازمت اختیار کرنا  شرعا درست  نہیں، اور حاصل ہونے والی تنخواہ حلال نہیں۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

( كتاب المساقاة، باب الربا، لعن آكل الربا ومؤكله،27/2 ،ط: قديمي)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے سود کے لینے والے اور دینے والے اور کاتب وشاہد پر ،پس جس میں سود کا لکھنا پڑھنا اور حساب کرنا پڑے ،اس حدیث کی وجہ سے وہ نوکری جائز نہیں ہے اور سود کم دینا پڑے یا زیادہ ،حرمت میں برابر ہے ،اسی طرح لینا سودکا کم ہو یا زیادہ مطلقاً حرام ہے،ایک حدیث میں ہے کہ ایک درہم سود کا کھانا چھتیس زنا سے زیادہ گناہ ہے،والعیاذ باللہ ۔فقط"

(سود ،قمار اور بیمہ کا بیان،بینک میں ملازمت کرنا،491/14،ط:دار الاشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101596

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں