بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھانجی کو شہوت سے چھونے یا دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت کا حکم


سوال

اگر بھانجی یا بھانجے کو شہوت سے دیکھوں یا چھو لوں، تو ان کا نکاح میری اولاد سے کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بھانجے کو شہوت کی نظر سے دیکھنے یا چھونے سے حرمتِ مصاہرت تو ثابت نہیں ہوتی، لیکن اس طرح کرنا جائز نہیں ہے اور  یہ ایک بڑا گناہ کا کام ہے، جس پر توبہ و استغفار لازم ہے۔

جہاں تک بھانجی کو شہوت کے ساتھ دیکھنے کی بات ہے، تو اگر سائل  یا بھانجی نے ایک دوسرے کی شرم گاہ کو بغیر حائل کے شہوت کے ساتھ دیکھا ہو تو ایسی صورت میں پھر بھانجی  کا نکاح اپنے اولاد سے نہیں کراسکتا،  بشرطیکہ سائل نے جس وقت بھانجی کو شہوت سے دیکھا ہو، اس وقت بھانجی کی عمر کم از کم نو سال ہو۔ البتہ شرمگاہ کے علاوہ باقی اعضاء کو شہوت کے ساتھ دیکھنے کی صورت میں بھانجی سے بھی حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔

رہی بات بھانجی کو شہوت کے ساتھ چھونے کی، تو اگرسائل نے اپنی مشتہاۃ (کہ اس وقت کم از کم اس کی عمر 9 سال تھی)  بھانجی کو اس طور پر چھویا ہو  کہ اس کے اور بھانجی کے جسم کے درمیان کوئی حائل یعنی کوئی کپڑا وغیرہ نہیں تھا یا حائل تو تھا، لیکن وہ کپڑا اتنا باریک تھا کہ  اس سے بدن کی گرمی محسوس ہوگئی تھی اور شہوت بھی محسوس ہوگئی تھی یا جسم کے ایسے حصے کو بلاحائل چھویا یا بوسہ دیا تھا، جہاں چھونے میں شہوت غالب ہو تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگئی ہے، لہذا  ایسی صورت میں پھر اس بھانجی کا نکاح سائل کے لڑکوں سے جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ‌والمنظور ‌إلى ‌فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌فصل في المحرمات، ج: 3، ص: 33، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(‌وتمنع) ‌المرأة ‌الشابة (من كشف الوجه بين رجال) لا لأنه عورة بل (لخوف الفتنة) كمسه وإن أمن الشهوة لأنه أغلظ، ولذا ثبت به حرمة المصاهرة كما يأتي.

(قوله ثبت به) أي بالمس المقارن للشهوة، بخلاف النظر لغير الفرج الداخل، فلا تثبت به حرمة المصاهرة مطلقا ط."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب شروط الصلاة، ج: 1، ص: 406، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(‌و) ‌حرم ‌أيضا ‌بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة.

(قوله: وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌فصل في المحرمات، ج: 3، ص: 32، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة. وكذا لو مس أسفل الخف إلا إذا كان منعلا لا يجد لين القدم، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، ج: 1، ص: 275، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قبل أم امرأته) في أي موضع كان على الصحيح جوهرة (حرمت) عليه (امرأته ما لم يظهر عدم الشهوة) ولو على الفم كما فهمه في الذخيرة (وفي المس لا) تحرم (ما لم تعلم الشهوة) لأن الأصل في التقبيل الشهوة، بخلاف المس (والمعانقة كالتقبيل) وكذا القرص والعض بشهوة، ولو لأجنبية وتكفي الشهوة من أحدهما.

وفي الرد: (قوله: على الصحيح جوهرة) الذي في الجوهرة للحدادي خلاف هذا فإنه قال لو مس أو قبل، وقال لم أشته صدق إلا إذا كان المس على الفرج والتقبيل في الفم. اهـ. وهذا هو الموافق لما سينقله الشارح عن الحدادي، ولما نقله عنه في البحر قائلا ورجحه في فتح القدير وألحق الخد بالفم. اهـ. وقال في الفيض: ولو قام إليها وعانقها منتشرا أو قبلها، وقال لم يكن عن شهوة لا يصدق، ولو قبل ولم تنتشر آلته وقال كان عن غير شهوة يصدق وقيل لا يصدق لو قبلها على الفم وبه يفتى. اهـ.فهذا كما ترى صريح في ترجيح التفصيل، وأما تصحيح الإطلاق الذي ذكره الشارح، فلم أره لغيره نعم قال القهستاني: وفي القبلة يفتى بها أي بالحرمة ما لم يتبين أنه بلا شهوة ويستوي أن يقبل الفم أو الذقن أو الخد أو الرأس، وقيل إن قبل الفم يفتى بها، وإن ادعى أنه بلا شهوة، وإن قبل غيره لا يفتى بها إلا إذا ثبتت الشهوة.اهـ. وظاهره ترجيح الإطلاق في التقبيل لكن علمت التصريح بترجيح التفصيل تأمل."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌فصل في المحرمات، ج: 3، ص: 36،35، ط: سعید)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں