بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھانجی کے نکاح میں ہوتے ہوئے خالہ سے نکاح کرنا


سوال

1:   ایک شخص کے نکاح میں ایسی دو عورتیں جمع ہوسکتی ہیں جو آپس میں بھانجی اور خالہ ہوں؟

2: اگر اس نے دونوں سے نکاح کیا ہو تو کیا حکم ہے ، پہلی  بیوی کا اور دوسری بیوی کا؟ پہلی بیوی بھانجی ہے جس سے 35  یا 40 سال شادی کے ہوگئے، اب دوسری بیوی (جو پہلی بیوی کی خالہ ہے) سے شادی کی ہے۔ دونوں کا حکم بیان فرمادیں۔

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں   خالہ اور بھانجی کو ایک ساتھ عقد ِ نکاح میں جمع کرنا ناجائز اور حرام ہے، حدیث مبارکہ میں  آں حضرتﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ: ”عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اورعورت کو اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں  جمع  کرنا جائز نہیں ہے“۔

2۔ خالہ اور بھانجی    میں  سے مذکورہ  شخص کے نکاح میں  چوں کہ بھانجی پہلے سے موجود تھی؛ اس لیے اب جو خالہ سے نکاح کیا ہے وہ نکاح فاسد ہوا، لہذا خالہ سے فی الفور علیحدگی کے الفاظ  کہہ کر  (مثلاً: میں نے تمہیں چھوڑدیا)  علیحدگی اختیار کرنا  لازم ہے۔

نیز اگر خالہ سے علیحدگی سے پہلے  مذکورہ شخص  نے ازدواجی تعلق قائم نہیں کئے ہوں تو اس نکاح کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوگا، اگر ازدواجی تعلق قائم کرلیے ہوں تو  شوہر پر   مہراور عورت پر  عدت(مکمل تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) گزارنا لازم ہوگا،اور اولاد ہونے كی صورت ميں اس كا نسب بھی  ثابت ہوگا، اور جب تك اس عورت (خالہ) كي عدت   نہیں  گزرے گی ، اس وقت تک مذکورہ شخص کے لیے اپنی بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہوگا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يجمع بين المرأة وعمتها، ولا بين المرأة وخالتها."

(صحيح البخاري (7 / 12) كتاب النكاح، باب لا تنكح المرأة علي عمتها، ط: دار طوق النجاة)

فتاوى ہندیہ میں ہے :

"(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لا يجمع بين أختين بنكاح ولا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج. والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكراً؛ لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما، هكذا في المحيط. فلا يجوز الجمع بين امرأة وعمتها نسباً أو رضاعاً، وخالتها كذلك ونحوها، ويجوز بين امرأة وبنت زوجها؛ فإن المرأة لوفرضت ذكراً حلت له تلك البنت، بخلاف العكس، وكذا يجوز بين امرأة وجاريتها؛ إذ عدم حل النكاح على ذلك الفرض ليس لقرابة أو رضاع، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. فإن تزوج الأختين في عقدة واحدة؛ يفرق بينهما وبينه، فإن كان قبل الدخول؛ فلا شيء لهما، وإن كان بعد الدخول يجب لكل واحدة منهما الأقل من مهر مثلها ومن المسمى، كذا في المضمرات. وإن تزوجهما في عقدتين فنكاح الأخيرة فاسد، ويجب عليه أن يفارقها، ولو علم القاضي بذلك يفرق بينهما، فإن فارقها قبل الدخول؛ لا يثبت شيء من الأحكام، وإن فارقها بعد الدخول فلها المهر ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل، وعليها العدة ويثبت النسب ويعتزل عن امرأته حتى تنقضي عدة أختها، كذا في محيط السرخسي."

(1/ 277، كتاب النكاح، القسم الرابع المحرمات بالجمع، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود (بالوطء) في القبل (لا بغيره) كالخلوة لحرمة وطئها...الخ

(قوله: في نكاح فاسد) وحكم الدخول في النكاح الموقوف كالدخول في الفاسد، فيسقط الحد ويثبت النسب ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل، خلافا لما في الاختيار من كتاب العدة، وتمامه في البحر، وسنذكر في العدة التوفيق بين ما في الاختيار وغيره (قوله: وهو الذي إلخ) بخلاف ما لو شرط شرطا فاسدا كما لو تزوجته على أن لا يطأها فإنه يصح النكاح ويفسد الشرط رحمتي (قوله: كشهود) ومثله تزوج الأختين معا ونكاح الأخت في عدة الأخت ونكاح المعتدة والخامسة في عدة الرابعة والأمة على الحرة. وفي المحيط: تزوج ذمي مسلمة فرق بينهما لأنه وقع فاسدا. اهـ. فظاهره أنهما لا يحدان وأن النسب يثبت فيه والعدة إن دخل بحر."

 (3/ 131، كتاب النكاح، باب نكاح الفاسد، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100041

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں