بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھانجی کےشوہر اور بھانجی کے بیٹے کے ساتھ عمرہ کےسفرپر جانے کا حکم


سوال

میری بھانجی کا شوہر اور بھانجی کا  بیٹامیرے لیے  محرم ہیں، کیا میں  ان کے ساتھ عمرہ پر جا سکتی ہوں؟

جواب

واضح رہے  کہ بھانجی کا شوہر  شرعی  محرم نہیں ہے،اس لیے  اس کے ساتھ سائلہ  سفر ِعمرہ یا حج  پر نہیں جاسکتی ، اور نہ  جانا جائز ہے ، البتہ بھانجی کا بیٹا محرم ہے، اس  کے ساتھ سفر پر  جاسکتی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ."(31)

"ترجمہ:اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے (بھی) کہہ دیجیئے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کے مواقع کو ظاہر نہ کریں ، مگر جو اس (موقع زینت) میں سے (غالباً ) کھلا رہتا ہے (جس کے ہر وقت چھپانے میں حرج ہے) اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور اپنی زینت (کے مواقع مذکورہ) کو (کسی پر) ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے (محارم پر یعنی) باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر،  یا اپنے حقیقی (علاتی یا اخیانی) بھائيوں پر) یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی (حقیقی علاتی اور اخیانی) بہنوں کے بیٹوں پر یا اپنی عورتوں پر،  یا اپنی لونڈیوں پر یا ان مردوں پر جو طفیلی (کے طور پر رہتے) ہوں اور ان کو ذرا توجہ نہ ہو یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے ابھی ناواقف ہیں (مراد غیر مراہق ہیں) اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے اور مسلمانو (تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہوگئی ہو تو) سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔"

(سورۃ النور، آیت:31، ج:2، ص:573، ط:مکتبہ رحمانیہ)

تفسیر القرطبي میں ہے:

"الثانية عشرة- قوله تعالى: (أو أبناء بعولتهن) يريد ذكور أولاد الأزواج، ويدخل فيه أولاد الأولاد وإن سفلوا، من ذكران كانوا أو إناث، كبني البنين وبني البنات. وكذلك آباء البعولة والأجداد وإن علوا من جهة الذكران لآباء الآباء وآباء الأمهات، وكذلك أبناؤهن وإن سفلوا. وكذلك أبناء البنات وإن سفلن، فيستوي فيه أولاد البنين وأولاد البنات. وكذلك أخواتهن، وهم من ولده الآباء والأمهات أو أحد الصنفين. وكذلك بنو الاخوة وبنو الأخوات وإن سفلوا من ذكران كانوا أو إناث كبني بني الأخوات وبني بنات الأخوات. وهذا كله في معنى ما حرم من المناكح، فإن ذلك على المعاني في الولادات وهؤلاء محارم."

 (سورة النور، الاية: 31،، ج:12، ص:154، ط:دار الکتب العلمية)

تفسری مظہری میں ہے:

"أو بني إخوانهن وبنى أبنائهم وأبناء بناتهم وان سفلوا أو بني أخواتهن او أبناء أبنائهن او أبناء بناتهن وان سفلوا أباح الله تعالى للنساء إبداء محاسنهن لهؤلاء لكثرة مداخلتهم عليهن واحتياجهن الى مداخلتهم وعدم توقع الفتنة من قبلهم الا نادرا لما في الطباع من النفرة عن مماسة القرابة والغيرة في انتسابهن الى الفاحشة وأباح لهم ان ينظروا منهن ما يبدو عند المحنة والخدمة وهو الوجه والرأس والصدر والساقان والعضدان ولا يجوز لهم النظر الى ظهورهن ولا الى بطونهن ولا الى ما بين السرة الى الركبة لانها لا تنكشف عادة فلا ضرورة في النظر إليها."

(سورة النور:  آية:31،  ج:6، ص: 497، ط: رشیدیة)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"بھتیجی اور بھانجی کے شوہر سے پردہ ہے

س… مجھ سے کسی نے کہا ہے کہ داماد کسی بھی درجے کا ہو، اس سے پردہ کرنا نہیں آیا، مثلاً: سگی بہن، بھتیجی اور بھانجی کا شوہر۔ کیا یہ بات دُرست ہے؟

ج… بھتیجی اور بھانجی کے شوہر سے پردہ ہے، وہ شرعاً داماد نہیں۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ، پردہ، ج:8، ص:91، ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102193

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں